امریکی حکومت ٹھپ
مسعود ابدالی
امریکی حکومت پاکستان کے وقت کے مطابق 23دسمبر
کی صبح 10 بجے سے ٹھپ یا مقامی اصطلاح میں Shutdown ہے۔ ہیں۔ حکومت ٹھپ اسی لئے نہیں کہ امریکہ کنگال یا قلاش ہوگیا ہے بلکہ اسے سادہ سے
الفاظ میں اسطرح سمجھ لیں کہ ملک چلانے کیلئے جو
جیب خرچ صدر ٹرمپ کو دیا گیا تھا وہ ختم ہوگیا اور جاری مدت کیلئے بجٹ منظور نہیں
ہوا چنانچہ حکومت کے پاس خرچ کیلئے پیسہ نہیں۔ چچا سام کی تجوری تو بھری ہوئی ہے
لیکن صدر ٹرمپ اس میں سے ایک پائی بھی نہیں
نکال سکتے۔
بجٹ وقت پر کیوں منظور نہ ہوسکا اور یہ خلیج
یا Gap Spendingکیوں پیدا ہوئی
اسے سمجھنے کیلئے امریکہ کے حکومتی ڈھانچے پر غور کرنا ضروری ہے۔ امریکی آئین
بنانے والوں نے رموز مملکت میں نگرانی و نگہبانی (Check and balance)کا بہت ہی موثر نظام ترتیب دیا ہے۔صدر نظام مملکت چلانے کے باب میں مکمل خود
مختار ہے لیکن بیت المال کی کنجی کانگریس نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔ امریکی
پارلیمان کو جو اختیارات حاصل ہیں ان میں سب سے کلیدی نکتہ سرکاری بٹوے کی ملکیت ہے جسے Power of
Purseکہتے ہیں۔کانگریس وقتاً فوقتاً اپنی اس قوت کو مزید مستحکم
کرتی جارہی ہے۔
دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح امریکہ میں بھی شعبہ
جاتی سالانہ بجٹ کا نظام قائم تھا یعنی ہر ایجنسی )وزارت) مختص بجٹ کو اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کی مجاز
تھی۔ لیکن 1976 میں کانگریس نے Appropriation یا تصرف کا قانون منظور کرلیا جسکے تحت مطالبہ زر پیش کرتے
وقت انفرادی مدات کا تعین بھی ضروری ہے مثلاً اگر ریلوے کیلئے 10 ارب کی رقم طلب کی جارہی ہے تو اس میں اس بات کی صراحت
ضروری ہے کہ اس میں سے کتنے پیسے ریلوے انجن کی خریداری پر خرچ ہونگے، کتنی رقم سے
نئے ریلوے اسٹیشن قائم ہونگے، نئی بوگیاں بنانے یا خریدنے پر کتی رقم خرچ کی
جائیگی وغیرہ۔ اسی کے ساتھ کانگریس نے 1982 میں Anti-Deficiency Act (ADA) بھی منظور کرلیا جسکے تحت ایک بجٹ
کے خاتمے اور دوسرے بجٹ کے درمیانی وقفے یعنی Spending Gapکے دوران سرکاری خرچ کیلئے صدر کے صوابدیدی اختیار پر
پابندی لگادی گئی۔ یعنی صدر مملکت اس دوران روزمرہ حکومتی اخراجات صوابدیدی فنڈ سے
نہیں چلاسکتے اور اور انھیں نیا بجٹ منظور ہونے تک حکومت کو تالا لگانا یا Shutdownکرنا پڑیگا۔ تاہم
وزارت دفاع، فوج اور کانگریس اس بندش سے مستثنیٰ ہیں۔
ADAکا پہلا شکار ریگن انتظامیہ ہوئی جنھیں اپنے 8 سالہ عہد
اقتدار میں 3 بار سرکاری دفاتر کو بند کرنا پڑا لیکن ہر بار یہ دورانیہ چند گھنٹے
رہا جسکی وجہ سے عوامی سطح پر اسے محسوس نہیں کیا گیا۔ جارج بش سینئر کے دورمیں ایسی
ہی ایک صورتحال پیدا ہوئی جو صرف اختتام ہفتہ یعنی ہفتہ اور اتوار تک محدود رہی۔
ایک طویل Shutdownصدر بل کلنٹن کے دور
میں ہوا جب حکومت 16 دسمبر 1995 سے 6 جنوری 1996 تک بند رہی۔
صدر ٹرمپ کے عہد
اقتدار میں پہلا تنازعہ گزشتہ برس جنوری کو پیش آیا جب ایمیگریشن کیلئے مختص رقم
پر تنازعے کی بنا پر بجٹ وقت پر منظور نہ ہوسکا اور حکومت 3 دن تک بند رہی۔ ایک
ماہ بعد یہ صورتحال دوباہ پیدا ہوئی لیکن صرف گھنٹے بعد بجٹ منظور ہوگیا اور حالات
معمولات پر آگئے۔
اس تفصیلی تعارف کے
بعد اب آتے ہیں امریکی سرکارکی حالیہ بندش کی طرف۔
صدر ٹرمپ کو امریکہ
میں رنگدار غیر ملکیوں کی آمد پسند نہیں۔ صدر اوباما کہنے کو تو بڑے آزاد خیال اور
لبرل ہیں لیکن انکا دور صدارت بھی تارکینِ وطن کیلئے بہت سخت تھا اور لاطینی
تارکینِ وطن کے خلاف میکسیکو کی سرحد پر ناکہ بندیوں کا آغاز جناب بارک اوباما ہی
کارنامہ ہے۔ انکے دور میں لاکھوں ہسپانوی ملک
بدر کئے گئے۔ مزے کی بات کہ صدر ٹرمپ اور صدر اوباما دونوں ہی تارکینِ وطن
والدین کے چشم و چراغ ہیں۔ صدر ٹرمپ کی والدہ محترمہ میری این میکلوڈ سیاحتی ویزے
پر انگلستان سے امریکہ تشریف لائیں اور ایک
امریکی تاجر فریڈ ٹرمپ سے شادی کرلی۔ خود فریڈ ٹرمپ کے والد جرمنی سے امریکہ آئے
تھے۔ اسی طرح صدر اوباما کے والد براک حسین اوباما سینئر کینیا سے
تعلیمی ویزے پر امریکہ تشریف لائے جنھوں نے اپنی ایک ہم جماعت این ڈنہم Ann Dunhamسے نکاح کرلیا۔
احمد فراز نے ٹھیک ہی کہاتھا ' کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں' چنانچہ ایک
غیر ملکی تارک وطن کے صاحبزادےجناب ٹرمپ امریکہ کو غیر ملکیوں سے پاک کرنے کیلئے
بے حد پرعزم ہیں۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ رشتوں کی
بنیاد پر ایمگریشن کے نظام کو ختم کرکے اسے میرٹ پر استوار کرینگے اور ملک کی
سرحدوں کو محفوط کرکے تارکین وطن کی غیر قانونی آمد کو ناکام بنادینگے۔ اس ضمن میں
انھوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر اٹھارہ فٹ بلند کنکریٹ
کی دیوار تعمیر کی جائیگی جسکا خرچ میکسیکو ادا کریگا۔ اسی وقت میکسیکو حکومت نے
صدر ٹرمپ کے اعلان کو لغو قراردیتے ہوئے دوٹوک وضاحت کی کہ میکسیکو کسی قیمت پر اس
دیوار کا خرچ ادا نہیں کریگا۔ لیکن صدر ٹرمپ اپنے حامیوں کو یقین دلاتے رہے کہ
انھیں ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالنا آتا ہےاور وہ چٹکی بجاتے ہی یہ رقم میکسیکو سے
نکلوا لینگے۔
20 جنوری 2016 کو حلف
اٹھانے کے بعد انھوں نے اپنے پہلے مطالبہ زر میں دیوار کیلئے 25 ارب ڈالر مختص
کرانے کی کوشش کی۔ حالانکہ اسوقت کانگریس کے ایوان زیریں اور سینیٹ دونوں جگہ انکی
ریپبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل تھی لیکن یہ رقم منظور نہ ہوسکی اور بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد اتنی ہی رقم منظور ہوسکی کہ سرحد
ہر کچھ کچی پکی اضافی چوکیاں بن جائیں۔
اس سال جب نومبر
میں ایوان زیریں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو
برتری حاصل ہوگئی تو صدر ٹرمپ نے کوشش کی کہ جنوری میں نئی کانگریس کے حلف اٹھانے
سے پہلے وہ دیوار کیلئے رقم منظور کرالیں چنانچہ بجٹ آفس نے وزرات اندرونی سلامتی (DHS)کے بجٹ میں دیوار کیلئے 5 ارب 60کروڑ
ڈالر کا مطالبہِ زر ٹانک دیا۔ساتھ ہی ریپبلکن رہنماوں کو یہ دھمکی بھی گوش گزر
کردی گئی کہ وہ اس رقم میں کسی قسم کی کٹوتی برداشت نہیں کرینگے اور اگر ایک پائی
بھی کم کی گئی تو وہ Spending Bill (فنانس بل) کو ویٹو کردینگے۔ امریکی آئین کے تحت صدر کانگریس سے
منظور کئے ہوئے کسی بھی بل کو ویٹو کرکے غیر موثر کرسکتا ہے تاہم کانگریس دوتہائی
اکثریت سے ویٹو کو تحلیل کرسکتی ہے جسے ویٹو کو Over ride کرنا کہتے ہیں۔
تاہم اس بل پر سینیٹ
کے ریپبلکن ارکان میں اتفاق رائے نہ پیدا ہوسکا لہٰذا اسکے ایوان زیریں میں جانے
کی نوبت ہی نہ آئی۔ صدر ٹرمپ نے سینیٹ اور ایوان زیریں کے قائد حزب اختلاف (Minority Leader)سینیٹر چک شومر اور
محترمہ نینسی پلوسی کو بات چیت کیلئے وہائٹ ہاوس آنے کی دعوت دی اور انھیں دباو
میں رکھنے کیلئے روائت کے برخلاف یہ بات چیت میڈیا کے سامنے کی گئی۔ ملاقات میں
نینسی پلوسی نے صاٖف صاٖف کہا کہ میکسیکو ہمارا قریبی دوست اور تجارتی ساجھے دار
ہے اور اسکی سرحد پر دیوار کھڑی کرنا غیر اخلاقی ہوگا الا یہ کہ میکسیکو اس پر
راضی ہو اور صدر کے انتخابی وعدے کے مطابق اسکے اخراجات ادا کرے۔ چک شومر نے بھی
کہا کہ وہ ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی کو صدر کی بچگانہ ضد پر قربان نہیں
کرسکتے۔ اگر صدر ٹرمپ اپنی اکثریت کے بل پر مطالبہ زر منظور کروالیں تو ڈٖیموکریٹک
پارٹی اسے صدر کا جمہوری حق سمجھ کر بسروچشم قبول کرلیگی لیکن رائے شماری کے دوران
ہم اسکی بھرپور مخالفت کرینگے۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے غیر مبہم انداز میں کہا کہ یہ
قومی سلامتی کا معاملہ ہے لہٰذا وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے اسکے نتیجے میں
انھیں حکومت کو تالہ ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی
مخالفت کے باوجود یہ قرارداد کانگریس سے منظور ہوسکتی تھی کہ سینیٹ اور ایوان
نمائندگان دونوں جگہ ریپبلکن پارٹی کی اکثریت تھی لیکن ریپبلکن پارٹی کے 3
سینیٹروں نے بھی اس خطیر رقم کو غیر ضروری قراردیتے ہوئےرائے شماری کے دوران غیر
جانبدار رہنے کا عندیہ دیا۔ ناراض ارکان کو
منانے کیلئے نائب صدر مائک پینس اور دامادِ اول جیررڈ کشنر نے ایک ایک رکن سے بنفس
نفیس ملاقات کی لیکن ریپبلکن سینٹرز راضی نہ ہوئے۔ اور ریپبلکن پارٹی کے وہپ (Whip) جان تھون (John Thune)نے اپنے قائد کو مطلع کیا کہ سینٰٹ کے 100 میں سے صرف 48 ووٹ پکے ہیں چنانچہ نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے قائد
ایوان مچ مک کونل نے بحث موخر کرادی اور ایوانِ نمائندگان کا اجلاس بھی حکومتی اخراجات کے
بل پر رائے شماری کے بغیر ملتوی کر دیا گیا۔
اس کے نتیجے میں 21
دسمبر نصف شب سے وفاقی حکومت کا بڑا حصہ مفلوج ہوگیا۔سرکاری جامعات، عوامی پارکوں،
ڈاکخانوں اور کئی سرکاری محکموں میں کام رک گیا اور 8
لاکھ ملازمین جبری رخصت یاFurlough
پر بھیج دیئے گئے۔ان میں سے لازمی سروس کے
3 لاکھ 80 ہزار ملازمین کام تو کررہے ہیں لیکن تنخواہوں سے محروم ہیں۔ اس ضمن سرکاری ملازمین کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی
سرکار ٹھپ ہونے سے پہلے ایک قرارداد سینیٹ سے منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی جسکے مطابق
تمام سرکاری ملازمیں کو جبری رخصت کے عرصے کا معاوضہ شٹ ڈاون ختم ہونے کے بعد
اداکردیا جائیگا۔اجلاس کے بعد سینیٹر چک شومر نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کی ضد اور
یکطرفہ فیصلوں نے ملک کواس حال پر پہنچایا ہے۔ اس بدمزگی کے نتیجے میں امریکہ سمیت
دنیا بھر کی منڈیوں میں افراتفری پھیل گئی ہے اور بازارحصص کے زمین سے لگ جانے کی
بنا پر امریکیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے
صدر ٹرمپ نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ دیوار کے بغیر جنوبی سرحد
انتہائی غیر محفوظ ہوگئی ہے جسکی وجہ سے ملکی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔امریکی صدر چاہتے ہیں کہ قومی سلامتی کو لاحق اس خطرے کے
پیش نظر وہ ایک صدارتی حکم کے ذریعے سرحدوں پر ہنگامی حالات کا اعلان کردٰیں اور
اپنے فوج کی انجنیرنگ کور کو میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا حکم دیں۔
انجنیرنگ کور اس کام کیلئے وزارت دفاع کے بجٹ کو استعمال کرسکتی ہے۔ تاہم قانونی
ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اسلئے کہ سرحدوں پر میکسیکو کی جانب
سےکسی قسم کی عسکری نقل و حرکت کی کوئی
اطلاع نہیں اور خطرے سے نبٹنے کیلئے فوج کو
سرحد پر مورچہ زن کیا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے مضبوط فوج دیوار کے پیچھے قلعہ بند
ہوکر اپنا دفاع کرتی اچھی نہیں لگے گی۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ پرامید ہیں کہ اگر انکے
صدارتی حکم کو آئینی عدالت میں چیلینج کیا گیا تو سپریم کورٹ کے قدامت پسند جج
انکی حمائت کرینگے۔ 9 رکنی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی تعداد 5 ہے جس میں
سے 2 خود صدر ٹرمپ کے نامزد کردہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب ایمرجینسی کارڈ کا استعمال
خاصہ دلچسپ ہوگا جس سے امریکی عدلیہ کو ایک کڑے امتحان سے گزنا ہوگا۔
شٹ ڈاون ایسے وقت
ہوا جب کرسمس کی سرگرمی اور خریداری اپنے عروج پر تھی اور ان دنوں میں تنخواہوں سے
محرومی سرکاری ملازمین کیلئے سخت تکلیف دہ ہے۔امریکی قرض پر گزارہ کرنے والی قوم
ہے اور انکے یہاں بچت کا کوئی تصور نہیں۔ لوگوں نے گھر، گاڑی، فرنیچر اور سامان
آرائش وغیرہ قرض پر لے رکھا ہے جسکی ہر ماہ قسط ادا کی جاتی ہے۔ عام طور سے تنخواہ
ملنے سے پہلے قرض کی قسطوں کیلئے چیک لکھ لئے جاتے ہیں۔ جیسے ہی تنخواہ ملی اسکا
بڑا حصہ ختم ہوجاتا ہے اور مہینے کی 20 تاریخ کے بعد یہ جملہ عام ہے کہ I am brokeیعنی
پیسے ختم ہوگئے اب اگلی تنخواہ کا انتظار ہے۔جنوری شروع ہوتے ہی سرکاری ملازمین کے
گھروں پر قابل ادا بلوں اور بینک نوٹسوں کا انبار لگ گیا ہے لیکن تنخواہ بند ہے اورادائیگی
کے پیسے نہیں۔ اگر قسطیں وقت پر جمع نہ ہوئیں تو ان بیچاروں کو تاخیری مدت کا ڈنڈ
بھرنا پڑیگا جو 18 سے 20 فیصد کے قریب ہوگا۔ کانگریس اور صدر کے درمیان
مفاہمت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ حکومت لمبے عرصے تک
یعنی مہنیوں بلکہ سالوں بند رہ سکتی ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی صدر نے
کہا کہ شاید 2020 میں نئی کانگریس آنے تک یہ
صورتحال جاری رہے۔
گزشتہ ہفتے وفاقی
ملازمین کی انجمنUnion AFGEنے دادرسی کیلئےعدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کرلیا۔
انجمن کے صدر ڈیوڈ کاکس
(David Cox)کا کہنا ہے کہ صدر اور کانگریس کے کھیل میں 8لاکھ
ملازمین فٹبال بن گئے ہیں جنھیں دونوں طرف سے ٹھوکر پڑ رہی ہے۔ عدالت کے نام
درخواست میں یونین نے موقف اختیار کیاہے کہ بلا تنخواہ کام ملازمت نہیں بیگاری یا
غلامی ہے جسکی امریکی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ بلا تنخواہ کام لینا محنت کے
قوانین کی شدید خلاف ورزی ہے۔ یونین عدالت سے استدعا کررہی ہے کہ حکومت کو وفاقی
ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی کا حکم دیا جائے چاہے اسکے لئے چچا سام کو قرض ہی
کیوں نہ لینا پڑے۔دلچسپ بات کہ درخواست کی سماعت کرنے والے وفاقی جج بھی تنخواہ سے
محروم ہٰیں اور اپیل کے خلاف حکومت کا دفاع کرنے والے سرکاری وکیلوں کو بھی تنخواہ
نہیں ملی۔ یعنی سائل، قاضی اور سرکاری وکیل سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ
حکومت کی بندش کا اثر عام لوگ بھی محسوس کررہے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں کام سست
ہوگیا ہے۔ کچھ ملازمین جبری تعطیل پر ہیں اور جنھیں ڈیوٹی پر بلایا جارہا ہے وہ
تنخواہوں سے محرومی کی بنا پر مالی پریشانیوں کا شکار ہیں جسکی وجہ سے انکا کام
میں دل نہیں لگتا اور مزاج میں چڑچڑاپن بھی بہت واضح ہے۔ سرکاری پارکوں می گندگی کا انبار لگ رہا ہے کئی بڑے عوامی پارک
کے بیت الخلا استعمال کے قابل نہیں رہے۔
عملے کے جبری تعطیل پر جانے کی وجہ سے ڈاک کی ترسیل میں تاخیر ہورہی ہے اور
ڈاکخانوں پر قطاریں بھی لمبی ہوتی جارہی ہیں۔ ہوائی سفر کرنے والوں کو جانچ پرتال
کے مرحلے میں زیادہ انتظار کرنا پڑرہا ہے کہ ہوئی اڈوں پر ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی
ایڈمنسٹریشن (TSA)کے بہت سے اہلکار چھٹی پر ہیں۔ اکثر سرکاری ملازمین رخصت لے کر گھر چلانے
کیلئے دوسرے اداروں میں جزوی ملازمتیں کررہے ہیں۔
ایک اور مشکل جسکا سامنا
عام امریکیوں کو اگلے چند دنوں میں کرنا ہے وہ ٹیکس کے گوشواروں (Tax Returns)کی تکمیل اور زیادہ
اداکئے ہوئے ٹیکس کی واپسی یا Refundہے۔ انکم ٹیکس (IRS)کا عملہ جبری تعطیل پر ہے جسکی وجہ سے گوشواروں کی جانچ
پڑتال اور refundکے کام میں میں تاخیر
کا خدشہ ہے۔ لوگوں نے یہ سوچ کر ادھار خریداری کی ہے کہ اسکی ادائیگی refundسے کردی جائیگی لیکن تاخیر کی صورت میں اضافی سود چڑھنے اور ساکھ خراب ہونے کا خدشہ
ہے۔
دوسری طرف مایوسی اور اشتعال صدر ٹرمپ کے
روئے سے عیاں ہے۔ کابینہ کے ارکان، مشیر، مددگار اور ریپبلکن ارکانِ کانگریس کے
ساتھ اب سرکاری ملازمین انکے چڑچڑے پن کا نشانہ بن رہے ہیں۔ 31 دسمبر کو انھوں نے ایک
صدارتی فرمان
(Executive Order)جاری کردیا جسکے تحت 2019 کے دوران سرکاری ملازمین کی
تنخواہیں منجمد کر دی گئی ہیں۔ اس سے پہلے صدر کے بجٹ آفس نے جنوری سے وفاقی ملازمین
کی تنخواہوں میں 2.1فیصد اضافے کی سفارش کی تھی اور صدر ٹرمپ بھی ملازمین کو اضافے
کی خوشخبری سناچکے تھے لیکن اب انکا کہنا
ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال اس اضافی خرچ کی متحمل نہیں ہوسکتی لہٰذا 2019 کے
دوران وفاقی حکومت کے ملازمیں کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ تاہم مسلح
افواج کے اہلکار اس انجماد سے مستثنیٰ ہیں جنکی تنخواہیں یکم جنوری سے 2.6فیصد
بڑھائی جارہی ہیں۔3 جنوری کو انھوں نے نائب صدر اور کابینہ کے ارکان کی تنخواہوں کو بھی تااطلاع ثانی منجمد کرنے کی نوید سنادی۔
کہاوت ہے کہ گینڈوں کی لڑائی میں گھانس بیچاری مسلی جاتی ہے۔ صدر ٹرمپ اور کانگریس کے درمیاں انا کی جنگ میں
امریکی عوام رلتے نظر آرہے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 11 جنوری
2019
No comments:
Post a Comment