Monday, January 7, 2019

نئے پاکستان کا NRO


نئے پاکستان کاNRO
کیا حکومت اور شریف خاندان کے مابین NROہونے والا ہے؟؟  جی ہاں زمینی حقائق اسی جانب اشارہ کررہے ہیں۔ بقول انصار عباسی حکومتی کارکردگی سے اب 'وہ' بھی پریشان ہیں۔ اور یہ بات ہے بھی سچ کہ دوست ملکوں کی جانب سے اعانت کے باوجود ملکی معیشت میں بہتری کے آثار نہیں۔ پیارومحبت کے دعوے ایک طرف دوستوں کی جانب سے یہ سارے تحفے سودی قرض ہیں۔ ہمارا چینی سے میٹھا دوست 8 فیصد اور خلیجی احباب ڈٰیڑھ سے ڈھائی فیصد شرح سود پر 'امداد'فراہم کررہے ہیں۔ایف بی آر کی جانب سے محصولات کے اعدادوشمار مایوس کن ہیں اور برآمدات میں اضافے کے کوئی آثار نہیں۔مقتدر حلقوں کیلئے اس سے زیادہ پریشان کن بات فواد چودھری، فیصل واوڈا اور فیاض الحسن چوہان کی آتشیں زبانیں ہیں جس نے سیاسی ٹمپریچر کو عدم استحکام کی حد تک بڑھادیا ہے۔زرمبادلہ کے تیزی سے سکڑتے ذخائر میں اضافے کیلئے ملکی صنعت کو فروغ دینے کی ضروت ہے تاکہ اشیائے ضرورت کے باب میں درآمدات پر انحصار کم ہو اور عمدہ معیار کی برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکے۔
کاروباری سرگرمیوں میں اضافے اور صنعت کے فروغ کیلئے سیاسی و انتظامی استحکام ضروری ہے اور بیان بازی کے جھکڑ میں سیاسی مفاہمت و یگانگت کے چراغ روشن رکھنا ممکن نظر نہیں آرہا۔دوسری طرف شریف خاندان کے اعصاب بھی جواب دے رہے ہیں۔ بڑے بھائی کو سزا ہوچکی ہے چھوٹے میاں کے گرد شکنجہ تنگ ہے۔ بڑے میاں کی گردن میں پڑے سرئے نے انھیں سیاسی میدان میں یکہ و تنہا کردیا ہے اور انکے حق میں تحریک چلانا تو دور کی بات یار لوگ جیل جاکر ملاقات کے رودار بھی نہیں کہ میاں صاحب اچھے وقتوں میں کبھی بھی میں، میرا، مجھے اور مجھکو سے آگے نہ بڑھے۔ ذات کے گرد گھومتی قیادت کا شاخسانہ ہے کہ سیاسی ہم عصر بھی ان پر بھروسہ نہیں کرتے اور مولانا فضل الرحمان کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود زرداری میاں صاحب پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔دوسری طرف زرداری خاندان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک تو موجود ہے لیکن انتہائی خراب کارکردگی کی بنا پر بھٹو کے طفیل سندھ کے عوام زرداری خاندان کو محض برداشت کررہے ہیں اور آزمائش کی صورت میں وہ سڑکوں پر نہیں آئینگے چنانچہ تندوتیز تقریروں اور مزاحمت کے بلند و بانگ دعووں کے ساتھ بلاول ہاوس بھی مفاہمت کے سگنل نشر کررہا ہےیعنی عمران خان، نوازشریف اور زرداری تینوں ہی دباو میں ہیں۔ اس ضمن میں سب سے بڑی آزمائش عمران خان کی ہے کہ انھوں نے اپنے حامیوں کی توقعات کو آسمان پر پہنچایا ہوا ہے اور لوگ ان سے معجزوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں جبکہ یہ بات اب خانصاحب کو سمجھ آگئی ہے کہ 2019 ایک انتہائی مشکل سال ہوگا۔ شائد اسی لئے مقتدرہ بھی انھیں اپنے روئے میں لچک کا مشورہ دے رہی ہے۔
مشکلات اور فکر ہائے دوردراز میں غلطاں و پیچاں تینوں فریق اپنی انا کے گنبد سے نکلنے کیلئے موقع اور تقریب بہرِملاقات کی تلاش میں ہیں۔ اگرچہ کہ خانصاحب کے عقاب اب بھی ڈٹے رہو اور اڑے ر ہو کی تلقین کررہے ہیں لیکن عمران خان کو اندازہ ہوگیا ہے کہ بند گلی سے نکلے بغیر معاملات کو سلجھانا ممکن نہیں۔ معیشت کی بہتری خانصاحب کیلئے سیاسی زندگی وموت کا سوال ہے۔مستقبل میں حالات کی جو صورت گری نظر آرہی ہے اسکے مطابق:
سیاسی ٹمپریچر کم کرنے کیلئے سنسنی خیز بیانات اور الزامات کو محدود کردیا جاییگا
نیب احتساب کا عمل جاری رکھے گا لیکن حکومتی ترجمان کی جانب سے تبصروں کی حوصلہ شکنی کی جائیگی
دوسری طرف شہباز شریف قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی (PAC)سے 'خرابی صحت' کی بنیاد پر مستعفی ہوجائینگے اور جوابی خیر سگالی کے طور پر حکومت علاج کی غرض سے انکے غیر ملک جانے پر کوئی اعترااض نہیں کریگی
اگر آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی تو سرکاری وکیل عدالت میں جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرینگے اور ضمانت پر رہائی کی بس اسی حد تک مخالفت کی جائیگی کہ موذیوں کا منہہ بند رہے۔
7 جنوری کو بینکنگ کورٹ میں آصف زرداری اور انکی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی توسیع کی حکومت کی جانب سے عدم مخالفت پیپلز پارٹی سے خیرسگالی کا اظہار ہے۔

No comments:

Post a Comment