دکی نے دکھی کردیا
جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں بلوچستان میں کوئلے کی کانیں
محنت کشوں کیلئے موت کی گھاٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ دسمبر
کے اختتام پر لورالائی میں کوئلے کی کان بیٹھ جانے سے 3 کانکن جاں بحق اور 2 زخمی
ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے صرف 4 ہفتے بعد لورالائی کے قریب ضلع دکی میں آج ایک اور کان دھماکے سے بیٹھ گئی
اور 6 محنت کش اپنی جان سے گئے۔
تفصیلات
کے مطابق پیر کو مزدور اس کان سےکوئلہ نکالنے کا کام کررہے تھے کہ میتھین (methane)گیس بھرگئی۔کان میں میتھین اور دوسری گیسوں کے
اخراج کا کوئی راستہ نہ تھا اور نہ ہی یہاں میتھین ناپنے کا کوئی آلہ یا الارم نصب
تھا چنانچہ مزدور بیچارے کام کرتے رہے۔ غالباً رگڑ یا انکے تیشوں سے نکلنے والی
چنگاری سے میتھین بھڑک اٹھی اور 4کانکن
یہاں زندہ درگور ہوگئے۔ دھماکے کی آواز سن کر قرب و جوار کی کانوں پر کام کرنے
والے کارکن مدد کیلئے دوڑ پڑے۔ امدادی کارکنوں کیلئے ماسک یا دوسرےحفاظتی آلات
موجود نہ تھے لیکن اپنے ساتھیوں کو بچانے کیلئے 16 دلاور کان میں اتر گئے۔ میتھین سے بھری گیس اور جلے
کوئلے کے ملبے سے یہ بیچارے اپنے ساتھیوں کو تو کیا نکالتے سارے کے سارے بیہوش
ہوگئے اور جب انھیں نکالنے کیلئے امدادی ٹیم آئی اسوقت تک 2 کارکن فوت ہوچکے تھے جبکہ
مدد کیلئے اترنے والے 14 کارکنوں کو بیہوشی کی حالٹ میں نکال لیا گیا یعنی آج کا
حادثہ 6 گھرانوں کے چرا غ گل کرگیا۔
حادثے
کے بعد سینئر مائنز انسپکٹر عاطف علی نے بتایا کہ امدادی کارروائی مکمل ہونے کے بعد
حادثے کا شکار ہونے والی کان کو سیل کردیا گیا ہے اورتحقیقات کے لیے محکمہ معدنیات
کی جانب سے جلد انکوائری ٹیم تشکیل دی جائے گی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ماہ ہونے
والے حادثے کے بعد بھی عاطف صاحب نے بالکل ایساہی بیان دیا تھا۔
اللہ
نے بلوچستان کو قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور اسکے کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی اضلاع میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں۔ ان ذخائر سے
کوئلہ نکالنے کیلئے ڈھائی ہزار سے زائد
کانیں کھودی گئی ہیں جہاں 40 ہزار کان کن
سینکڑوں اور ہزاروں فٹ نیچے جاکر کوئلہ نکالتے ہیں۔ یہاں کوئلے کی پیداوار کا
تخمینہ 90 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ ان کانوں
میں حادثات روزمرہ کا معمول ہے اور ہر سال سینکڑوں محنت کش کانوں میں دب کر مارے
جاتے ہیں۔ اس سال کے دوران ہونے والے چند حادثات:
·
مئی کے پہلے ہفتے میں کوئٹہ کے مضافاتی علاقے پیراسماعیل کے قریب ماراواڑ کی کان میں زیرزمین
دھماکوں سے کان کی چھت منہدم ہوگئی تھی اور دودرجن سے زیادہ کان کن یہاں زندہ دفن
ہوگئے۔
·
اگست میں کوئٹہ ہی
میں کوئلے کی ایک اور کان اسی قسم کے حادثے کا شکار ہوئی جس میں 8 محنت کش مارے
گئے
·
گزشتہ برس 27
دسمبر کو لورالائی کی ایک کان میں 3 کانکن
اپنی جان کی بازی ہارگئے
·
اور آج دکی میں 6
مزید کانکن اپنی جان سے گئے
کان
کنی ان غریبوں کیلئے حصول رزق حلال کا ذریعہ ہے۔ لیکن ان جیالے ہنرمندوں کے خون
پسینے سے کروڑ پتی بننے والے سیٹھوں کیلئے ان غریبوں کی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔
نہ تو کانوں پر میتھین، H2Sاور دوسری خطرناک گیس ناپنے کے آلات رکھے گئے ہیں اور
نہ ہی تربیت سمیت حفاظتی اقدامات کا کوئی اہتمام ہے۔ بدقسمتی سے وفاقی و صوبائی
وزارت معدنیات اور
Mining Managementکے ادارے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر سردار محمد یعقوب خان نصر، بلوچستان
عوامی پارٹی (BAP)کے ایم این اے سردار اسرار خان ترین اور BAPہی کے مسعود لونی اس علاقے کے ایم پی اے ہیں۔بلوچستان کے
وزیراعلیٰ جام کمال کا تعلق بھی BAPسے ہے۔ کاش یہ لوگ اپنی پارٹی کے نام کا ہی لحاظ کرلیں اور
باپ کی طرح ان جوانسال کانکنوں کا خیال کرلیں
No comments:
Post a Comment