روئت ہلال کا
مسئلہ
خبر گرم ہے کہ حکومت نے روئتِ ہلال کمیٹی ختم کرکے روئت ہلال کی ذمہ داری محکمہ موسمیات کو دینے
کا فیصلہ کیا ہے۔ اس موضوع پر ہم نے 2017
کی عید الفطر کے موقع پر ایک تفصیلی پوسٹ
احباب کی نذر کی تھی۔ اسے کحومت کے حالیہ اعلان کی روشنی میں ایک بار پھر پیش کیا
جارہا ہے۔ْ
ہر عید اور بقر عید کے بعد ہمارے لبرل ر روشن خیال حضرات 'مولبی' پر تبرہ
شروع کردیتے ہیں۔ انکے خیال میں روئت ہلال ایک پرانی چیز ہے اب یہ فیصلہ کمپیوٹر
کے ذریعے ہونا چاہئے۔فیس بک، واٹس اپ،ٹویٹر اور سماجی رابطے کے دوسرے ذرایع ایک
بار پھر مولبی کی جہالت، تنگ نظری اور فسادی طبیعت پر تبرہ سے بھرے پڑے ہیں۔ مثال
کے طور پر 'دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم ہر مہینے زمین پر کھڑے چاند ڈھونڈھ
رہے ہیں'۔ احباب کی دلچسپی کیلئے چند نکات یہاں پیش خدمت ہیں۔
سب سے پہلے Visible Lunar Crescent یا ہلال اور فلکیاتی نئے چاند یعنی Astronomical New Moonکے فرق کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
سب سے پہلے Visible Lunar Crescent یا ہلال اور فلکیاتی نئے چاند یعنی Astronomical New Moonکے فرق کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
فلکیاتی نیا چاندفلکیات کی ایک اصطلاح ہے اور یہ اس لمحے کو کہتے ہیں جس
وقت ماہانہ گردش کے دوران چاند سورج اور زمین کے بیچ میں پہنچ جاتا ہے۔اگر اس وقت
چاند سے سورج بالکل چھپ جائے تو سورج گرہن واقع ہو جاتا ہے۔فلکیانی نیا
چانداوسطاًہر 29.530588دن کے بعد طلوع ہوتا ہے۔ اخباروں، کیلنڈروں، جنتریوں اور سب
سے بڑھ کر Google میں جو "نیا چاند"
درج ہوتا ہے وہ دراصل "فلکیاتی نیا چاند" ہے۔
تاہم قمری مہنیوں کا تعین زمین سے نظر آنے والے چاند سے ہوتا ہے جسے ہلال کہتے
ہیں۔ ماہرین فلکیات کے تخمینے میں فلکیاتی نیاچاند واقع ہونے کے کم از کم سولہ
گھنٹے اور اکثر اس سے کہیں بڑی مدت، مثلا
چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد وہ ہلال بن کر نظر آنے کے لائق ہوتا ہے۔
"ہلال" کب نظر آئے گا یہ
مسئلہ فلکیات داں ابھی تک پوری طرح حل نہیں کر سکے ہیں۔ تقریبی حل میں تو کافی
ترقی ہوئی ہے جیسے یہ کہ آج رات زمین کے فلاں فلاں علاقوں میں ہلال کے نظر آنے کا
امکان قوی ہے۔ مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے موسم کی پیش گوئی ہو۔ ویسا وثوق ابھی میسر
نہیں ہے جو دوسرے فلکیاتی مسائل میں ہے۔ مثلاً سورج ڈوبنے کا وقت کسی مقام اور
تاریخ کے لیے سکنڈوں تک صحیح محسوب ہو سکتا ہے۔شوال کے ہلال پر ایک برطانوی ماہر
فلکیات مسٹر Yallopکا مرتب کردہ ایک نقشہ
الجزیرہ نے شایع کیا ہے۔ یلپ صاحب گرین وچ کی شاہی رسد گاہ سے وابستہ ہیں اور ایک
عرصے تک اس رسد گاہ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ انکے حساب و کتاب کے مطابق:
شوال 1438 کا نیا چاند 24 جون 2017کو GMTکے مطابق 02:31پر طلوع ہوا۔ اسوقت پاکستان میں صبح کے 07:31 بج رہے تھے۔
پشاور میں غروب آفتاب کے وقت یعنی شام کو 7 بجکر 28 منٹ پر پر نئے چاند کی عمر
قریباً 12 گھنٹے تھی جبکہ چاند 7 بجکر 40 منٹ پر ڈوب گیا لہٰذا اسکے نظر آنے
کاامکان صفر تھا۔ چاند یا ہلال کے نظر آنے یا نہ آنے کا تخمینہ کسی ملا نے نہیں
ایک ماہر فلکیات نے دیاہے۔ انکے خیال میں :
Aعلاقوں میں چاند آنکھ سے بلادوربین نظر آسکتا ہے۔ اس میں لاطینی امریکہ کا
مغربی حصہ اور امریکہ کے کچھ ؑعلاقے شامل ہیں
Bعلاقوں میں بھی چاند نظر آسکتا اگر موسمی حالات (بادلٌ) مناسب ہوں ۔ جن میں
سارالاطینی امریکہ اور امریکہ شامل ہے
Cعلاقوں میں چاند دیکھنے کیلئے شائد دوربین کی ضرورت پڑیگی۔ اس میں مغربی
افریقہ کا کچھ حصہ شامل ہےD
علاقوں میں طاقتور دوربین سے کچھ علاقوں میں چاند دیکھا جاسکتا ہے۔
احباب کی دلچسپی کیلئے یہ نقشہ پیش خدمت ہے۔ اس پوری گفتگو کا مقصد یہ ہے
کہ روئت ہلال میں اختلاف کی وجوہات ملائیت نہیں بلکہ سائنس ہے کہ چاند کی عمر اور
اسکے زاوئے کی بنا پر دنیا کے مختلف مقامات پر اسکے نظر آنے یا اوجھل رہنے کے
امکانات موجود ہوتے ہیں ۔یعنی ملا بیچارہ تو جاہل ٹہرا ماہرین فلکیات بھی تیقن کے
ساتھ چاند نظر آنے کی پیش گوئی نظر نہیں کرسکتے۔ یہ مولبی کی کم علمی نہیں بلکہ
اجرام فلکی کی حرکت ہے۔آخر میں ایک دلچسپ بات کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں
ہفتے کے شام چاند دیکھنے کا دعویٰ کیا گیا حالانکہ سعودی عرب میں جب آٹھ بجکر 5
منٹ پر چاند غروب ہوا اسوقت اس بیچارے کی عمر صرف 14 گھنٹہ اور 34 منٹ تھی۔ ماہرین
فلکیات کے مطابق اس عمر کا چاند نظر ہی نہیں آسکتا۔ انتشار کی بنیادی وجہ مولبی یا
ملا نہیں خلافِ عقل شہادتیں ہیں۔وضاحت و اعتراف: اس پوسٹ کی ترتیب اور تصدیق و
تصحیح میں برادرمکرم اور ماہر ریاضی و فلکیات ڈاکٹر کمال ابدالی سے مدد لی گئی ہے
No comments:
Post a Comment