بنگلہ دیش کے انتخابات یا خون کی ہولی
مسعود ابدالی
بنگلہ دیش کے لہو لہو انتخابات اتوار کو
ختم ہوگئے۔ انتخابات کیا تھے بس خون ہی خون تھا۔لاٹھی ٹیکتے ضعیفوں سے لے کر ان
پھول سے بچوں تک کا لہو رزق خاک بن گیا جن کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ سیاہ
اتوار کو کتنے لوگ مارے گئے اسکی تعداد شائد کبھی نہ معلوم ہوسکے کہ قاتلوں نے
اپنے چہروں پر مختلف سیاسی نقاب چڑھائے ہوئے تھے۔
سرکاری اعلامئے کے مطابق کومیلا، میمن سنگھ، کھلنا، بوگرہ، ڈھاکہ، چاٹگام، کاکسس
بازار، نواکھالی،راجشاہی، جیسور، باریسال، رنگپور، دیناج پور اور سلہٹ کے مختلف پولنگ
اسٹیشنوں پر خونریز تصادم میں 19 افراد مارے گئے جن میں 13 سال کا کم سن بچہ
اسرائیل جو برہمن باڑیہ (کومیلا) میں مارا گیا اور ایک 80 سال سالہ بزرگ شامل ہیں۔
بیساکھیوں پر چلنے والے یہ بڑے میاں دیناج پور میں اسوقت کچل کر جاں بحق ہوگئے جب
ایک پولنگ اسٹیشن پر عوامی لیگ کی فائرنگ سے بھگدڑ مچی۔ یعنی معذوری کے
باوجود جمہوری فرض اداکرنے کیلئے آنے والے
اس 'جوانسال بوڑھے' نے سنار بنگلہ کو اپنے لہو سے گل و گلزار کردیا۔ جیتے جاگتے
انسانی خون سے بڑھ کر 16 کروڑ بنگالیوں کی امنگوں اور ارمانوں کا جو خون ہوا اسکا
سوگ منانے کیلئے ایک صدی بھی ناکافی ہے۔ عوامی مینڈیٹ چرانے کی ایسی واردات دنیا نے
کم ہی دیکھی ہے۔ سرکاری اعلان کا سب سے پراسرار پہلو یہ ہے کہ ملک بھر سے تصادم
میں ملوث 9 افراد کی گرفتاریوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ صرف ڈھاکہ سے جماعت کے 2 سو
کارکن غائب ہیں۔
جیساکہ ہم نے ایک
گزشتہ نشست میں شیخ مجیب الرحمٰن کے دست راست، تحریک آزادی کے رہنما، موجودہ دستور
کے مولف و مصنف اور بنگلہ دیش کے پہلے وزیرقانون ڈاکٹر کمال حسین کا ایک بیان نقل
کیا تھا جو انھوں نے انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے دیا
تھا۔
ایک انتخابی جلسے کے بعد جب کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ جاتیو اوکو فرنٹ کو کتنے
ووٹ ملیں گے تو ڈاکٹر صاحب بولے 'ووٹ گننے کا مرحلہ 30 دسمبر کو آئیگا فی الحال تو
ہم اپنے قیدی گن رہے ہیں جنکی تعداد لاکھوں میں ہے'۔کمال حسین گرفتاری کا رونا
رورہے تھے انتخابات کے دن تو خون کی بارش ہوگئی۔ جماعت اسلامی کے حلقوں کا کہنا ہے
کہ انکے 35 کارکن اپنی جان سے گئے۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) اور جماعت کے
پولنگ ایجنٹ انتخابات سے ایک رات پہلے ہی گرفتار کئے جاچکے تھے۔ ایکو فرنٹ کے
مطابق انھوں نے صداقت نامے کے حصول کیلئے الیکشن کمیشن کو اپنے پولنگ ایجنٹوں کی
جو فہرست فراہم کی کمیشن نے اسکی ایک کاپی تھانوں کے حوالے کردی اور یہ سب لوگ اسی
رات دھر لئے گئے۔ جن 25حلقوں سے جماعت اسلامی کے امیدوار میدان میں تھے وہاں
گرفتاریوں میں خاص 'احتیاط' برتی گئی تھی کہ ارکان و کارکنوں کے ساتھ کوئی سرگرم
حامی اور انتخابی کارکن بھی سنت یوسفی سے محروم نہ رہ جائے۔ ایک اندازے کے مطابق
جماعت سے وابستہ پردہ دار بچیوں سمیت ڈیڑھ لاکھ افراد حراست میں لئے گئے۔ یہ تو وہ
خوش نصیب ہیں جنھیں پولیس نے گرفتار کیا اور انکے حراستی مقام کا اہل خانہ کو علم
ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جنھیں عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم عوامی
چھاترو لیگ اور جوبو (نوجوان) لیگ نے اغوا کیا۔ یہ بدنصیب کن تعذیب کدوں میں
بدترین تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں وہ کسی کو نہیں معلوم اور ان میں سے بہت سے
نوجوان بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس ہنگامہ داروگیر سے
میمن سنگھ ڈویژن کے کارکن کسی حد تک محفوظ رہے جہاں سے جماعت نے کوئی امیدوار
نامزد نہیں کیا تھا لیکن یہاں سے جو کارکن انتخابی مہم کیلئے رنگپور اور گائے بندھا گئے ان بیچاروں کو
بھی اسی اذیت کا سامنا کرناپڑا۔
تشدد کے کوڑے سے آزاد امیدوار حتیٰ کہ عوامی لیگ
کی اتحادی جاتیو پارٹی کے کارکن بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ ڈھاکہ کے حلقہ نمبر 1 کے
پولنگ اسٹیشن پر جب BNPکے مرکزی رہنما مرزاعباس اپنی اہلیہ افروزہ عباس کے ہمراہ ووٹ ڈالنے پولنگ
اسٹیشن آئے تو عوامی لیگی کارکنوں نے راستہ روک لیا۔ یہ مسلح کارکن جو نعرے لگارہے
تھے اسکا ترجمہ کچھ اسطرح کیا جاسکتا ہے کہ 'پہلے کشتی پر مہر کا حلف اٹھاو پھراندر
آو'ابھی یہ بیچارےمیاں بیوی اندر جانے کیلئے ان کارکنوں کی منت سماجت کررہے تھے کہ
اس حلقے سے آزاد امیدوار محترمہ سلمیٰ اسلام ووٹ ڈالنے وہاں پہنچیں۔ خاتون کا
انتخابی نشان کار تھا۔ عوامی لیگی کارکنوں نے ان سے کہا کہ پولنگ اسٹیشن کے قریب
انتخابی نشان کی نمائش منع ہے لہٰذا آپ اپنی گاڑی یہاں سے کم ازکم ایک کلو میٹر
دور کھڑی کرکے آئیں۔ سلمیٰ اسلام اس ڈر سے کہ کہیں یہ شرپسند مشتعل ہوکر انکی گاڑی
نذرِ آتش نہ کردیں خاموشی سے واپس چلی
گئیں اور کافی دور گاڑی کھڑی کرکے پیدل چلتی ہوئی دوبارہ پولنگ اسٹیشن پر پہنچیں
تو انھیں پہلے سے کھڑے مرزاعباس کی طرح روک لیا گیا اورووٹ ڈالنے کیلئے کشتی پر
مہر لگانےکے وعدے پر اصرار ہوا۔ مجبوراً یہ لوگ وہاں سے واپس آگئے اور سلمیٰ صاحبہ
نے انتخابات سے دستبردار ہونے کااعلان کردیا۔
ڈھاکہ کے حلقہ 15 میں
جو حکمت استعمال ہوئی وہ سن کر ہمارے قارئین حیران رہ جائینگے، یہاں سے جماعت
اسلامی بنگلہ دیش کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمان امیدوار تھے۔ حلقے کے اکثر
پولنگ اسٹیشنوں پر صبح سویرے سے درجنوں افراد قطار بنائے کھڑے تھے۔ بعد میں آنے
والے ووٹران قطاروں کے پیچھے کھڑے ہوکراپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ کافی دیر بعد
لوگوں نے نوٹ کیا کہ لائن تو آگے بڑھ ہی نہیں رہی۔ دوپہر کے قریب عوامی لیگ کے
حامی اخبار روزنامہ سن (Daily Sun) کے نمائندوں کا ایک وفد وہاں پہنچا جو انتخابات کی
کوریج کررہا تھا۔ یہ صحافی اسٹیشن کے باہر ووٹروں کی تاحد نظر قطار دیکھ کر بہت
متاثر ہوئے لیکن جب وہ لوگ پولنگ اسٹیشن کے اندر گئے تو معلوم ہوا ہے کہ وہاں تو
کوئی ووٹر ہے ہی نہیں۔ اور پولنگ کا عملہ تاش کھیلنے میں مصروف ہے جبکہ عوامی لیگی
کارکن ٹھپے لگاکر بیلٹ بکس بھر رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ عوامی لیگ نے اپنے کارکن قطار
کے آغاز میں کھڑے کردئے ہیں جو ووٹ ڈالنے اندر نہیں جارہے جسکی وجہ سے یہ ساکت
قطار بڑھنے کا نام نہیں لے رہی اور لائن میں لگے لوگ انتطار کی اذیت سے اکتا کر ووٹ دئے بغیر
واپس جارہے ہیں۔کچھ سخت جان مستقل مزاجی کے ساتھ کئی گھنٹے کھڑے رہے لیکن
آخرِکارووٹ دئے بغیر انھیں بھی لوٹنا پڑا۔ ان صحافیوں میں سے ایک نے پولنگ افسر سے
شکائت کی تو افسر کے جواب سے پہلے ہی چٹاخ کی آواز گونجی اوراسٹار کا نمائندہ گال سہلاتا ہوا وہاں سے
واپس ہوگیا۔ اپنے نمائندے پر حملے کا ذکر اسٹار نے online اشاعت میں کیا ہے
لیکن حفظ، ماتقدم کے طور پر اس دلیر صحافی کا نام محفی رکھا گیا۔
سوا 16 کروڑ نفوس پر
مشتمل بنگلہ دیش میں ایک ایوانی مقنہ ہے جسے جاتیہ سنگشاد یا قومی پارلیمان (قومی
اسمبلی)کہا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کی 300 نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں
جبکہ خواتین کیلئے مختص 50 نشستیں پاکستان کی طرح متناسب نمائندگی کی بنیاد پر
جیتنے والی پارٹیوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں ووٹروں کی کل تعداد دس کروڑ
41 لاکھ سے کچھ زیادہ ے جن میں سے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے 2 کروڑ افراد اسی
سال ووٹر بنے ہیں۔2014 کے انتخابات کا حزب اختلاف کی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا اور نتیجے کے طور
پر حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے 234 نشستیں ہتھیالیں۔ 34 نشستیں محترمہ روشن ارشاد
کی جاتیہ پارٹی کو دیکر حزب اختلاف تشکیل دی گئی۔ باقی ماندہ سیٹیں آزاد امیدواوں اور چھوٹی جماعتوں میں
تقسیم کردی گئیں۔
حسینہ واجد کو یقین
تھا کہ اس بار بھی حزب اختلاف انتخابات کا بائیکاٹ کریگی۔ اسلئے کہ BNPکی سربراہ خالدہ ضیا اور
جماعت کے اکثر رہنما جیلوں میں ہیں یا انکے خلاف قتل، دہشت گردی، شرپسندی اور نقص امن کے مقدمات قائم ہیں۔ کامیابی کو
یقینی بنانے کیلئے چند ماہ پہلے ایک آئینی ترمیم بھی منظورکرلی گئی جسکے تحت انتخابات کیلئے عبوری حکومت کی کوئی ضرورت نہیں
اور مدت پوری کرنے والی حکومت ہی انتخابات کا انتظام کریگی۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن
کی تشکیل کیلئے حزب اختلاف سے مشورے کی شرط بھی حذف کردی گئی اور حسینہ واجد نے
اپنے ذاتی وفادار ضلع فرید پور کے سابق کمشنر جی ایم نورالہدیٰ کو چیف الیکشن
کمشنر بنادیا، موصوف کو بے ایمانی اور رشوت خوری کے الزام میں اپنے عہدے سے برطرف
کیا جاچکا ہے۔ اس منصب کے ساتھ ہی حسینہ واجد نے
الیکشن کمشنر صاحب کے آبائی حلقے پتواکھالی 3 سے انکے بھانجے شہزادہ سجو کو
ٹکٹ بھی جاری کردیا۔ الیکشن کمشنر نے اپنے بھانجے کی کامیابی یقینی بنانے
کیلئے مخالف امیدوار BNPکے غلام مولیٰ رونی
کو پاکستان کے حامیوں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار کروادیااور حلقے سے جاتیہ
پارٹی کے امیدوار سیف الاسلام کو ڈرا دھمکا کر دستبر داری پر مجبور کردیا گیا
چانچہ شہزادہ سجو بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ حلقے میں رجسٹرڈ 95 فیصد ووٹروں نے
شہزادہ صاحب کے حق میں رائے دی۔
اس پیش بندیوں کے
باوجود انتخابات کی تاریخ سامنے آتے ہی ڈاکٹر کمال حسین
کی کوششوں سے ہندوستان مخالف سیاسی جماعتوں نے جماعت اسلامی اور BNPکے 20
جماعتی اتحاد سے ہاتھ ملانے کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر کمال حسین پکے سیکیولر اور مذہب
سے سخت الرجک ہیں۔ 'احتیاط' کا یہ عالم کہ جب بنگلہ دیش کے نئے آئین کا مسودہ
ارکان قومی اسمبلی میں تقسیم کیلئے شائع ہوا تو اسکے آغاز میں بسم اللہ لکھا ہوا
تھاجسے تقسیم سے پہلے حذف کردیا گیا۔ جب ڈاکٹر صاحب نے پریس کانفرنس میں ایکو فرنٹ
کے قیام کا اعلان کیا تو ان سے جماعت اسلامی کے بارے میں سوال ہوا جس پر ڈاکٹر
کمال حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش کا سیکیولر تشخص آئین کے ذریعے محفوظ کردیا گیا ہے اور
اسوقت اصل چیلینج ملک کی آزادی و خود مختاری کا تحفظ ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے
بارے جماعت کا عزم بہت واضح ہے اور اسکا جماعتی نظم و ضبط فرنٹ کو تقویت فراہم
کریگا۔ ڈاکٹر صاحب کھل کر نہ کہہ سکے لیکن سن نے والے سمجھ گئے کہ آزادی کے حوالے
سے کمال حسین کا اشارہ ہندوستان کی مداخلت کی طرف تھا اور اس معاملے میں جماعت
کےدوٹوک موقف بلکہ عزم مصمم کا خودہندوستان کو اچھی طرح اندازہ ہے۔ جاتیہ اوکو
فرنٹ میں لبرل پارٹی، بائیں بازو کی جاتیہ سماج تنتری دل،
کمیونسٹ لیگ کے ایک گروپ کے ساتھ دائیں
بازو کی
جمیعت علمائے اسلام، مسلم لیگ اورخلافت مجلس سمیت دودرجن سے
زیادہ چھوٹی بڑی جماعتیں شامل تھیں۔
فرنٹ نے سارے ملک میں گرفتاریوں اور حملوں
کے باوجود بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ فرنٹ کے رہنماوں کو امید تھی کہ انتخابات کے
دن فوج منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیگی اور فوج کے سربراہ جنرل عزیز احمد نے انتخاب سے دو دن پہلے ایک
بیان میں عوام کو منصفانہ انتخاب کا یقین بھی دلایا۔ انھوں نے عوام سے کہا کہ انکی
فوج بنگلہ دیش کے چپے چپے پر موجودہے اور لوگ بے خوف ہوکر اپنا حق رائے دہی
استعمال کریں۔ لیکن مردِ آہن اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے۔
جنرل عزیز کی یقین دہانی اور جرات مندانہ
انتخابی مہم کے باوجودانتخابات سے پہلے ہی غیر جانبدار سیاسی مبصرین کو یقین تھا کہ
ہندوستان اپنی وفادار کو کسی قیمت پر ہارنے نہیں دیگا۔ خاص طور سے جب کہ جماعت اسلامی فرنٹ کی پرجوش و سرگرم اتحادی ہے۔
فرنٹ نے 22 نشستیں جماعت کو دی تھیں جبکہ جن تین نشستوں پر جہاں جماعت اسلامی کے
ارکان آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے وہاں فرنٹ نے اپنے امیدوار کھڑے
نہیں کئے۔
ہندوستان کی مداخلت ابتدا ہی سے بہت واضح
تھی۔ایک نجی محفل میں ڈاکٹر کمال حسین نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ ہندوستانی وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی شری
اجیت کمار ادوال عوامی لیگ کی انتخابی مہم کی نگرانی کررہے ہیں اور مطلوبہ نتائج
کیلئے دوال سرجیکل ڈاکٹرائن (Surgical
Doctrine)کے عنوان سے ایک مربوط حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہوتے ہی بنگلہ دیش میں
ہندوستان کے ہائی کمشنر (سفیر) شری وردھن شرنگلا(Vardhan
Shringla) نے ایک اخباری کانفرنس میں صاف صاف کہا کہ بنگلہ دیش کے انتخابات
سے ہندوستان کو کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ ہمارے دوست کا اندرونی معاملہ ہے تاہم
جماعت اسلامی ہندوستان کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی صرف
اسی صورت میں قابل قبول ہوسکتی ہے کہ جب وہ اپنے دستور میں ترمیم کرکے تنطیمی و
نظریاتی بنیادوں کو سیکیولرازم سےہم آہنگ کرلے۔اور جب تک ایسا نہیں ہوتا جب تک
ہندوستان کیلئے جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنا ممکن نہیں۔
سیاسی مبصرین کو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی کوئی امید نہیں تھی لیکن خیال تھا سائیٹیفک
اور انجنیرڈ(Scientific and
Engineered)دھاندلی کی
جائیگی۔ یعنی کچھ مخصوص حلقوں میں ہاتھ کی صفائی دکھاکر مطلوبہ نتائج حاصل کئے
جائینگے۔ کچھ تجزیہ نگاروں نے تو پیشنگوئی بھی شروع کردی تھی کہ 70 سے 80 نشستوں
پر اوکوفرنٹ کو کامیاب ہونے دیا جائیگا اور حسب منشا آئینی ترمیم میں سہولت کیلئے
عوامی لیگ 200 نشستیں اپنے پاس رکھے گی۔لیکن جس بیباکی سے دھاندھلی کی گئی اس سے
تو لگتا ہے کہ عوامی لیگ کو ہندوستان کی طرف سے غیر مشروط حمائت کی بہت ہی واضح
یقین دہائی کروائی گئی ہے۔
انتخابی نتائج کے
مطانق عوامی لیگ نے 288نشستیں جیت لیں جبکہ اوکو فرنٹ صرف 7 نشستیں حاصل کرپایا۔جیسا کہ ہم نے اوپر
عرض کیا 2014 میں جب حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا
اورمیدان بالکل خالی تھا تب عوامی لیگ 234 نشستوں پر کامیاب ہوپائی تھی۔ اس بار
اکثر معرکوں میں عوامی لیگ نے 2لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ اسکے قریب
ترین حریف کو بمشکل 20 ہزار ووٹ مل سکے۔ گوپال گنج کی نشست پر حسینہ واجد نے 2لاکھ29
ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے جو کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 93 فیصد ہے جبکہ اوکو فرنٹ کے
امیدوار نے یہاں صرف 123 ووٹ حاصل کئے۔ مزے کی بات کہ نتیجے کا اعلان 4:30 پر
کردیا گیا یعنی پولنگ ختم ہونے کے صرف 30 منٹ بعد۔کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے
کاتناسب 100 فیصد رہا۔ ٓمثال کے طورپر فیروزپور حلقہ 2 کے 4 پولنگ اسٹیشنوں پر 100
فیصد ڈالے گئے اور بلا استثنا سارے ووٹ عوامی لیگ کے امیدوار انور حسین منجو کے حق
میں ڈالے گئے۔
سرجیکل ڈاکٹرائن اس اعتبار سے انتہائی مربوط تھا کہ تشدد، مارپیٹ اور ٹھپے
بازی کے ساتھ غیر ملکی مبصرین کو شیشے میں اتارنے کا پورا انتظام کیا گیاتھا۔ امریکہ
کے غیر جانبدار مبصرین کو ویزے کے اجرا میں اتنی تاخیر کی گئی کہ وہ لوگ وقت پر نہ
پہنچ سکے جبکہ ایشین نیٹ ورک یا ANFRELکے وفد کو پاکستان دوست قراردیکر ویزا دینے سے صاف انکار
کردیا گیا۔ سارے ملک میں کئی جگہ ماڈل پولنگ اسٹیشن تشکیل دئے گئے گئے۔کینڈا،
نیپال، ہندوستان اور سری لنگا کے مسلم مخالف ماہرین کو 'ماڈل پولنگ اسٹیشن'کا دورہ
کرواکر ان سے منصفانہ انتخاب کا فتویٰ لے لیا گیا۔ انتخابات کے دوسرے روز پریس
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مبصرین کے قائد اور کلکتہ پریس کلب کے سربراہ کمال بھٹہ
چاریا تو یہاں تک کہہ گئے کہ دنیا کی جمہوریتوں کو بنگلہ دیش کے شفاف انتخابی نظام
سے سیکھنا چاہئے۔ انکا کہنا تھاکہ ایسا شفاف، غیر جانبدار اور پرامن انتخاب اس سے
پہلے انھوں نےکہیں نہیں دیکھا۔ ہمیں تو یقین ہے کمال بھٹہ چاریا نے بنگلہ دیش
حکومت کا پریس نوٹ بھی نہیں دیکھا ورنہ وہ کم ازکم اسے پرآمن قرارنہ دیتے۔
انتخابات تو جیسے تیسے ہوگئے جماعت اسلامی کو اب ایک نئی آزمائش کا سامنا ہے۔
عوامی لیگ الزام لگارہی ہے کہ جماعت اسلامی اور BNPکے کارکنوں نے انکے بہت سے کارکنوں کو قتل کیا ہے اور جماعت
کے دودرجن کارکنوں کے خلاف قتل و دہشت گردی کے پرچے کاٹ دئے گئے ہیں۔ پیر کو
وزیراعظم ہاوس میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حسینہ واجد نے ان
مجرموں کو قرارواقعی سزا دینے کا اعلان کیا۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ
ان لوگوں پرسرسری سماعت کی انسداد دہشت گردی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائیگا۔ پریس
کانفرنس کے دوران وزیراعظم ہاوس کے باہر عوامی چھاترو لیگ اور جوبو لیگ نے اپنے
کارکنوں کے قتل کے خلاف مظاہرہ کیا جس میں خون کا بدلہ خون اور ملاوں کو پھانسی
دوکے نعرے لگائے۔ انتخابی مہم کے دوران ملک کے طول و عرض میں ہندوستان کے خلاف نفرت کی
لہر اٹھی ہے۔ ہندوستان کی مدد اور تشددو دھاندھلی کے ذریعے حسینہ واجد اپنے اقتدار
کو بچانے میں کامیاب ہوگئیں لیکن ہندوستانی مداخلت پر بنگالیوں میں بیچینی کے آثار
بہت واضح ہیں جسکا خود ہندوستان کو بھی اندازہ ہے۔ حسینہ واجد عوام کی توجہ ہٹانے
کیلئے البدر اور پاک فوج کی حمائت کا کارڈ دوبارہ استعمال کررہی ہیں۔چھاترو لیگ
آزادی مخالفین اور پاکستان کے حامیوں کو کچل دو کا نعرہ بہت زور شور سے لگارہی ہے۔
اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے حسینہ واجد نے بہت فخر سے کہا کہ دسمبر 1971 کی طرح دسمبر
2018میں بھی آزادی مخالفین کو عبرتناک شکست ہوئی ہے۔ ڈاکٹرکمال حسین اور اوکو فرنٹ
کے رہنماوں کیلئے شکست اور حکومتی ہتھکنڈے غیر متوقع نہیں تھےلیکن انھیں امید تھی
کہ مینڈیٹ اور امنگوں پر ڈاکے کے خلاف
زبردست عوامی ردعمل سامنے آئیگا لیکن راکی دہشت سے 'سارشہر بلکتا ہے پھر بھی کیسا
سکتہ ہے' والی صورتحال ہے۔ اوکو فرنٹ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ خالدہ
ضیا اور BNPکے اکثر رہنما جیل میں ہیں۔ خراب صحت کے 82 سالہ ڈاکٹر کمال
حسین کیلئے تحریک چلانا بہت مشکل ہیں وہ قانو نی ماہر اور دانشور ہیں۔ جلسہ جلوس
انکے بس کی بات نہیں خاص طور سے جب چھاترو لیگ اور جوبو فرنٹ نے دہشت کا بازار گرم
رکھا ہے۔ حسینہ واجد کے تیور سے لگ رہا ہے کہ کہ وہ جماعت اسلامی کو تنہا کرکے اسے
اپنے انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔ اللہ بنگالی ساتھیوں پر رحم فرمائے کہ
اب انھیں اعصاب شکن آزمائش کے ایک نئے سلسلے کا سامنا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے
اسپیشل 4 جنوری 2019
No comments:
Post a Comment