وینزویلا میں
امریکہ کی مداخلت
مسعود ابدالی
براعظم جنوبی امریکہ کا ملک وینزویلا آجکل شدید
سیاسی و معاشی بحران میں ہے اور سب بلاوں کا ہے جہاں سے نزول، یہ بلا بھی وہیں سے آئی ہے کے مصداق سو اتین
کروڑ نفوس پر مشتمل وینزویلا کے لوگ بھی امریکی قیادت کے شوقِ کشور کشائی کا نشانہ
بنے ہوئے ہیں۔
شمالی
بحراوقیانوس اوربحر کریبین کے ساحلوں پر واقع اس ملک کو 1498میں کرسٹوفر کولمبس نے
دریافت کیا جو 'نئی دنیا' المعروف امریکہ ڈھونڈنے نکلا تھا۔ اسکی جماعت میں چند اطالوی
مہم جو بھی تھے جنھیں اسکا ساحل اطالوی شہر وینس (Venice)جیسا لگا چنانچہ اسکا نام وینی زویلا(Veniziola) یا 'چھوٹا وینس' رکھدیاگیا جو ہسپانوی تلفظ میں
وینزویلا (Venezuela)ہوگیا۔کولمبس وینزویلااور ٹرینیڈاد (Trinidad)کے درمیان حائل خلیج پاریا (Gulf of Paria)کے ساحل سے ٹکراتے شفاف پانی اور تاحد نگاہ نیلگوں سمندر کو
دیکھ کر مبہوت رہ گیا اور فوراً اپنے ہسپانوی آقا کو پیغام بھیجا کہ ”اگر زمین پر
جنت دیکھنی ہو تو یہاں آجاو' چنانچہ وینزوئیلا 1522میں ہسپانوی سلطنت کا حصہ بن
گیا اور اکثریت نے کیتھولک مذہب اختیار کرلیا۔
1800کے آغاز سے مقامی لوگوں میں ہسپانوی قبضے کے خلاف
بیچینی کا آغاز ہوااور خونریز خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ ساری دنیا کی
طرح برطانیہ نے بھی اسکے کچھ علاقوں پر قبضہ جمایا اور یہ علاقہ اسپین، برطانیہ،
اٹلی اور جرمنوں کی باہمی چپقلش کا نشانہ بنارہا۔ تیل کی دریافت نے وینزویلا کو
بیرونی طاقتوں کیلئے اور اور بھی پرکشش بنادیا تاہم بھرپور جمہوری جدوجہد کے نتیجے
میں 15 نومبر 1945 کو اقوام متحدہ نے وینزویلاکو ایک آزاد ملک کی حیثی سے تسلیم
کرلیا۔
اس ملک میں تیل کے دریافت شدہ ذخائر کا حجم 300 ارب بیرل سے زیادہ
ہے اور اپنے ذخائر کے اعتبار سے وینزویلا کا دنیا میں پہلا
نمبر ہے۔ چند ماہ پہلے تک وینزویلا 22لاکھ بیرل تیل یومیہ برآمد کرتا تھا۔ اوپیک
کے دوسرےممالک کی طرح وینزویلا نے بھی تیل کی دریافت کے بعد اس سیال سونے کو اپنی
معیشت کی بنیاد بنالیا اور تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کی وجہ سے اسکی اقتصادیات
کئی بار عدم استحکام کا شکار ہوئی جسکے نتیجے میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ دوسری طرف حکمراں
طبقے کی لوٹ مار اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے تیل کی دولت سے مالامال اس ملک
کو بیروزگاری اور غربت کی آماجگاہ بنادیا۔
1980 میں فوج کے ایک جونیر افسر ہیوگو شاویز(Hugo Chávez)نے روائتی سیاست سے بیزار ہوکر ایک MBR-200کے عنوان نے ایک انقلابی سوشلسٹ تحریک کی بنیادرکھی جسکا
نعرہ 'قوم کی دولت عوام کیلئے' تھا۔شاویز کی تحریک بے حد
مقبول ہوئی لیکن 1992میں انھیں جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں گرفتار
کرلیاگیا۔دو سال بعد رہائی پر ہیوگو شاویز نے First
Republic Movementکے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کرلی۔ ہیوگو عوام میں بے حد مقبول تھے چنانچہ 1998انتخابات
میں وہ وینزویلا کے صدر منتخب ہوگئے اور انھوں نے ملک کی معیشت کو سوشلسٹ بنیادوں
پر استوار کرنا شروع کیا۔ اپنے نعرے 'قوم کی دولت عوام کیلئے' کو عملی جامہ پہنانے
ہوئے انھوں نے پیٹرول اور گیس کی قیمتیں برائے نام کردیں۔ صدر شاویز نے قومی تیل کمپنی کو ہدائت کی کہ منافع اور
ٹیکس ختم کرکے پٹرول اور گیس کی صرف پیداواری لاگت عوام سے وصول کی جائے۔ 1999میں
نئے دستور کی منظوری کے بعد تمام بڑی صنعتیں قومی ملکیت میں لے لی گئیں اور قومی
دولت کا بڑاحصہ سماجی بہبود کی مد میں خرچ کیا گیا۔ جسکے نتیجے میں 2010 تک
وینزویلا جنوبی امریکہ کا سب سے خوشحال ملک بن گیا جہاں جامعہ تک تعلیم مفت تھی
اور کینسر جیسے مرض کا علاج بھی بلامعاوضہ ہوتا تھا۔ ضعیفوں، بیروزگاروں اور
معذوروں کو عام لوگوں کی تنخواہ کے برابر امدادی رقم فراہم کی جاتی تھی۔
شاویزکی سوشلسٹ پالیسی امریکہ کو بالکل پسند نہ تھی۔ دوسری
طرف ہیوگو شاویز نے کیوبا کے فیڈل کاسترو، ایکوڈور، بولیویا اور نکاراگوا کی
امریکہ مخالف سوشلسٹ حکومتوں سے دوستی پکی کرلی۔ امریکی سی آئی اے کا کہنا تھا کہ شاویز
جنوبی امریکہ کو مارکس ازم کا قلعہ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے تیل کی
قومی کمپنی PDSVAکے بورڈآف ڈائریکٹرز میں سوشلسٹ دانشوروں اور ماہرین کو نامزد کرکے کمپنی کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیلِ نو کا آغاز کیا۔
اپریل 2002 میں انکی سوشلسٹ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے شروع
ہوئے اور تصادم میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دوران انکے خلاف فوجی بغاوت بھی ہوئی اور فوجی افسروں
نے انھیں گرفتار کرکے ایک امریکہ نواز تاجر پیڈرو کارمونا (Pedro Carmona)کو عبوری صدر بنادیا جنھوں نے وینزویلا کے دستور کو منسوخ
کرکے سوشلٹ پالیسیاں ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن سارے ملک میں ہیوگو کے حامی سڑکوں
پر نکل آئے۔ عوام کے دباو پر فوجی جنتا نے ہیوگو کو رہا کردیا اور صرف 4 دن بعد انکی
حکومت بحال ہوگئی۔ ہیوگو شاویزنے الزام لگایا کہ فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ کا
ہاتھ تھا۔ سابق امریکی صدر بش نے ہیوگو شاویزکے خلاف مظاہرے کی بھرپور حمائت کی جس
سے ان کے شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے۔
فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد ہیوگو شاویز نے بھی اپنے روئے
کو تبدیل کیا اور PDSVAکے سوشلسٹ بوڑدآف ڈائریکٹر کو معزول کرکے سابق افسران کو بحال کردیا۔اس اکھاڑ
پچھاڑ نے PDVSAکو سخت نقصان پہنچایا۔ پیدوارای لاگت میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ پیداوار
میں کمی واقع ہوئی۔ ملازمین کی ہڑتال نے معاملہ اور خراب کردیا۔ اس ہڑتال پر صدر
شاویز نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اعلٰی افسران کی شدید مخالفت کے باوجود 17000
ہڑتالی ملازمین کو برطرف کردیا۔ اس جذباتی فیصلے سے PDVSA عملاً مفلوج ہو
کر رہ گئ جسکے ملکی معیشت پر انتائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ پیدوار میں تعطل سے
آمدنی میں بھاری کمی ہوئی اور کمپنی مقروض ہوگئی۔ قرض اتارنے کیلئے PDVSAنے اپنے کئی منافع بخش اثاثے فروخت کردئے لیکن قرض کا جن
قابو نہ آسکا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ پیداوار کیلئے نئے کنویں بھی نہ کھودے
جاسکے کہ خدمت رساں اداروں کی ادائیگی کیلئے پیسے نہ تھے۔
اسی کے ساتھ انھوں نے بغاوت سے سبق سیکھتے ہوئے فوج کو
مضبوط بنانا شروع کیا اور روس سے بھاری اسلحہ خریدا۔ چین سے تعلقات کو مزید بہتر
کیا اور سی آئی اے کے حلقوں نے الزام لگایا کہ ایران کے پاسداران انقلاب نے شاویز
کے ذاتی محافظوں کو تربیتی خدمات فراہم کیں۔ تیل کی پیدوار میں کمی سے معیشت پہلے
ہی دباو کا شکار تھی دفاعی اخراجات میں اضافے نے معاملے کو اور خراب کردیا۔
اسکے باوجود 2006 میں یوگو شاویز تیسری مدت کیلئے بھاری
اکثریت سے ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔ انھوں نے ایک بار پھر الزام لگایا کہ ان
انتخابات میں سی آئی اے نے انھیں ہرانے کی کوشش کی تھی۔ انتخابات کے بعد انھوں نے
معیشت کی بہتری کیلئے بہت سے فیصلے کئے جس میں PDVSAکی تشکیلِ نو شامل ہے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
اکتوبر 2012کے انتخابات میں انھیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ۔ وہ بہت ہی معمولی
اکثریت سے یہ انتخابات جیتنے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن شدید بیماری کی وجہ سے وہ حلف نہ اٹھاسکے۔ کینسر
کے علاج کیلئے انھیٓں کیوبا جانا پڑاجہاں 5 مارچ 2013 کو انکا انتقال ہوگیا۔
انکی موت پر ایک نیا بحران شروع ہوا۔ حزب اختلاف کا مطالبہ
تھا کہ چونکہ صدر کا انتقال انکے حلف سے پہلے ہی ہوگیا ہے لہٰذا نئے انتخابات
کرائے جائیں لیکن نائب صدر نکولس مدورو Nicola Maduroنے صدرات سنبھال لی۔
قیادت میں تبدیلی کے باجود ملکی معیشت کا زوال جاری رہا۔
اسی دوران 2016 کے پارلیمانی
انتخابات میں حزب اختلاف نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی دوسری طرف امریکہ
میں صدر ٹرمپ نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ امریکی حکومت ہمیشہ ہی سے وینزویلا کی
سوشلسٹ حکومت کی مخالف رہی ہے لیکن صدر کلنٹن، صدر بش اور صدر اوباما سفارتی رکھ
رکھاو کے قائل تھے جبکہ اقبال کے مردقلندر طرح صدر ٹرمپ کی زبان انکے دل کی ترجمان ہے چنانچہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی
وینزویلاکی سوشلٹ حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔
دوسری طرف
وینزویلابھی معاشی اعتبار سے بالکل کنگال ہوچکا ہے۔ بیروزگاری عروج پر ہے اور غربت
کی وجہ سے قتل، ڈکیٹی اور دوسرے سنگین جرائم نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا
ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں وینزویلا کے شہری بہتر زندگی کی تلاش میں ملک چھوڑ چکے
ہیں۔
ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے صدر مدورو نے صدارتی انتخابات
6 ماہ قبل یعنی20 مئی 2018 کو کرانے کا اعلان کردیاجس میں وہ
67.8فیصد ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے۔حزب
اختلاف نے دھاندھلی کا الزام لگاکر نتائج کو مسترد کردیا۔ امریکہ، کینیڈا، یورپی
یونین،ارجنٹینا، برازیل اورکئی دوسرے ملکوں نے بھی ان انتخابات کو جانبداارنہ
قراردیتے ہوئے صدر مدوروکو وینزویلا کا صدر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جمہوریت کے
ان علمبرداروں کادہرا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ وینزویلا کے انتخابات کے 7 ماہ بعد
بنگلہ دیش میں انتخابات کا خونی ڈرامہ کھیلا گیا جہاں سینکڑوں لوگ قتل ہوئے اور
ہزاروں نوجوان غائب کردئے گئے۔ اسوقت بھی ایک لاکھ سے زیادہ سیاسی کارکن جیلوں میں
بدترین تشددکا نشانہ بن رہے ہیں لیکن دنیا کو اس پر کوئی پریشانی نہیں بلکہ کییڈا
کے ایک مندوب کو تو وہ انتخانات اتنے شفاف نظر آئے کہ انھوں نے امریکہ اور یورپی
ممالک کے انتخابی عملے کو تربیت کیلئے بنگلہ دیش بھیجنے کی سفارش کی۔
صدر مدورو کی انتخابی کامیابی کے خلاف حزب اختلاف نے
مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا اور پولیس
تصادم میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔دارالحکومت کراکس (Caracas)میں لاکھون افراد کے مظاہرے کی قیادت پارلیمینٹ کے صدر (اسپیکر) وان گیدو Juan
Guaido نے کی۔ 35 سالہ وان گیدو ایک انجنیئر اور سماجی
کارکن کے ساتھ شعلہ بیان مقرر ہیں۔ تاہم صدر مدودرو نے انتخابات کی شفافیت پر
اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے 10 جنوری کو نئی مدت کیلئے وینزویلا کی صدارت کا حلف
اٹھالیا۔
صدر ٹرمپ اور نکولس مدورو کے درمیان ذاتی مخاصمت کسی سے
چھپی ہوئی نہیں اور دونوں کے درمیان الفاظ کی جنگ اور جملے بازی ایک عرصے سے جاری
ہیں۔صدر ٹرمپ نے حزب اختلاف کے مظاہروں کی مکمل حمائت کی۔ امریکہ کی شہہ پر وان
گیدو کے حوصلے بلند ہوئے اور انھوں نے 23 جنوری کو صدارتی حلف اٹھاکر متوازی حکومت قائم کرلی۔
امریکہ نے وان گیدو کو ملک کا صدر تسلیم کرلیا جس پر مشتعل ہوکر نکولس مدورو نے
امریکہ سے سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے امریکی سفارتکاروں کو فوری طورپر وینزویلا
سے نکل جانے کا حکم دیدیا۔ صدر ٹرمپ نے مدورو کے فیصلے کو مسترد کردیالیکن امریکی
وزارت خارجہ کراکس سے اپنے سفارتی عملے کو واپس بلالیا۔
صدر مدورو الزام لگارہے ہیں کہ انکے خلاف تحریک امریکی
سی آئی اے نے شروع کرائی ہے۔ماضی میں سی آئی اے کئی جگہ حکومتوں کو الٹنے پلٹنے میں
ملوث پائی گئی ہے۔ 1953 میں ایران کے وزیراعظم محمد مصدق کی برطرفی ، 1958 میں
ایوب خان کی عسکری تاجپوشی، ترکی میں عدنان میندریس کی برطرفی و پھانسی اور مصر
میں صدر مورسی کی معزولی سے لے کر 2016میں صدرایردوان کے
خلاف ناکام فوجی بغاوت تک سیانوں کو ہر جگہ امریکی سی آئی آے کا ہاتھ صاف نظر آرہا
ہے۔
اب وینزویلا
کا سیاسی بحران عالمی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ امریکہ نے اس معاملے کو اقوام متحدہ
کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔دوسری طرف چین، روس اور ترکی خم
ٹھونک کر صدر مدورو کی پشت پر ہیں۔ روس کے ویٹو کے ڈر سے امریکی، برطانیہ اور
فرانس اس مسئلے کو سلامتی کونسل میں پیش کرنے سے ہچکچارہے ہیں۔ترک صدر اردوان نے اپنے امریکی ہم منصب کے روئے کی مذمت
کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں۔
روسی حکومت نے بھی وینزویلا میں امریکی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں
مدورو کو اپنی حمائت کو یقین دلایا ہے۔
اب امریکہ اور اسکے حلیفوں نے صدر مدورو کے خلاف معاشی
ناکہ بندی کا آغاز کردیا ہے۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا وینزویلا کی معیشت کا
دارومدار تیل کی برآمد پر ہے اور امریکہ اسکے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے ۔ اپنے
کاروبار کو مزید منافع بخش بنانے کیلئے PDVSAنے 1986میں امریکی تیل کمپنی سٹی سروسز یا CITGOخرید لی تھی۔امریکہ میں سٹی سروس کے پیدواری اثاثے قابل
ذکر نہیں لیکن ٹیکسس (Texas) اور لوزیانہ (Louisiana)میں تیل صاف کرنے کے کئی بڑے کارخانے (Refineries)اسکی ملکیت ہیں۔اور وینزویلا سے درآمد کیا جانیوالا خام
تیل سٹی سروس کی ریفاینریوں میں صاف کرکے CITGOکے پیٹرول پمپوں پر بیچا جاتا ہے۔ سعودی عرب سمیت خلیجی
ممالک تو صرف اپنا خام تیل بیچتے ہیں جبکہ وینزویلا تیل صاف کرکے پیٹرولیم مصنوعات
فروخت کرتا ہے جس میں منافع کی شرح خام مال سے بہت زیادہ ہے۔ خیال ہے کہ CITGOکی سالانہ آمدنی 10 ارب ڈالر ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ CITGOکی امریکہ سے ہونے والی آمدنی وان گیدو کے حوالے کردی
جائیگی لیکن وینزویلا کے اسٹیٹ بینک پر ابھی تک صدر مدورو کا کنٹرول ہے اسلئے فی
الحال
CITGOکی آمدنی اور مالیاتی آثاثے منجمد کئے جاسکتے ہیں یعنی
وینزویلا کے اربوں ڈالر امریکہ کے بینکوں میں پھنسے رہیں گے اور انجماد کے دوران
سود سے امریکہ کے ساہوکاروں کی چاندی ہوگی۔ وینزویلا کے یورپی گاہکوں نے بھی خریدے
جانیوالے تیل کی قیمت وان گیدو حکومت کو دینے اعلان کیا ہے اور جب تک وینزویلا کا
اسٹیٹ بینک انکی گرفت میں نہیں آجاتا یہ رقوم یورپی بینکوں میں منجمد رہینگی۔
ایران پر دباو کیلئے امریکہ نے ایرانی تیل کی خریداری
پر پابندی لگائی ہے لیکن اس بار سانپ کو مارنے کے ساتھ لاٹھی کی حفاظت کا بھرپور
بندوبست کیا گیا ہے اور تیل کی خریداری پر پابندی کے بجائے اخراجات کی ادائیگی روک
لی گئی ہے۔ یعنی وینزویلا سے تیل کا بہاو برقرار
ہے جبکہ وان گیدو کے نام پر تیل کی قیمت امریکہ اور یورپ کے بینکوں میں لمبے عرصے تک
پڑی پر رہیگی۔ منجمد فنڈ پر سود کی آمدنی کروڑوں میں ہوگی۔ اسے کہتے ہیٓں آم کے آم
اور گٹھلیوں کے دام۔
ہفت روزہ فرائیڈے
اسپیشل کراچی یکم فروری
2019
No comments:
Post a Comment