وینزویلا کا بحران۔ تیل کا فتور
وینزویلا کا سیاسی بحران عالمی حیثیت
اختیار کرگیا ہے۔ امریکہ نے اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ سال ہونے
والے صدارتی انتخابات کے نتائج کو حزب
اختلاف نے تسلیم نہیں کیا اور
مظاہرے شروع ہوگئے لیکن کامیاب ہونے والے
صدر نکولس مدورو (Nicolas
Maduro)نے مظاہروں کی پروا نہ کرتے ہوئے 10 جنوری کو حلف
اٹھالیا، جواب میں حزب اختلاف کے رہنما اور پارلیمنٹ کے اسپیکر وان گیدو Juan Guaidoنے امریکہ کی
شہہ پر 23 جنوری کو اپنی صدارت کا اعلان کردیا اور صدر ٹرمپ نے فوری طور پر وان گیدو کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔
اسی کے ساتھ مغربی یورپ کے ممالک بھی وان گیدو کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
ملک کے اندر مدورو اور گیدو
دونوں کے حامی مظاہرےکررہے ہیں اور اب تک
ان ہنگاموں میں 26 افراد مارے جاچکے ہیں۔
امریکہ اور اسکے حلیفوں کے مقابلے
میں روس، چین اور ترکی نے مدورو کی حمائت کا اعلان کیا ہے۔
ترک صدر اردوان نے اپنے امریکی ہم منصب کے
روئے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے
ملکوں کے معاملات میں مداخلت جمہوریت کی
کوئی خدمت نہیں۔ روسی حکومت نے بھی وینزویلا میں
امریکی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں مدورو کو
اپنی حمائت کو یقین دلایا ہے۔
براعظم جنوبی امریکہ کے شمال
مغرب میں
شمالی بحراوقیانوس اوربحر کریبین کے
ساحلوں پر واقع 3کروڑ 15 لاکھ آبادی والے
اس ملک میں تیل کے دریافت شدہ ذخائر کا
حجم 300 ارب بیرل سے زیادہ ہے اور اپنے
ذخائر کے اعتبار سے وینزویلا کا پہلا نمبر ہے۔ وینزویلا کے تیل کا سب سے بڑا
خریدار امریکہ ہے ۔ اپنے کاروبار کو مزید منافع بخش بنانے کیلئے وینزویلا کی
سرکاری تیل کمپنی PDVSAنے 1986میں
امریکی تیل کمپنی سٹی سروسز یا CITGOخرید لی تھی۔ پاکستان میں
بدین کے قریب تیل کا جو
ذخیرہ دریافت ہوا ہے وہ امریکہ کی یونین
ٹیکسس (Union
Texas)اور سٹی سروس کا ہی کارنامہ ہے۔ کچھ عرصہ بعد پاکستان میں
سٹی سروس کے اثاثے آکسیڈینٹل پیٹرولیم نےخرید لئے تھے۔
امریکہ میں سٹی سروس کے پیدواری
اثاثے تو قابل ذکر نہیں لیکن ٹیکسس اور لوزیانہ میں تیل صاف کرنے کے کئی بڑے
کارخانے (Refineries)اسکی ملکیت ہیں۔ اور وینزویلا سے درآمد کیا جانیوالا خام
تیل سٹی سروس کی ریفاینریوں میں صاف کرکے CITGOکے پیٹرول پمپوں
پر بیچا جاتا ہے۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک تو صرف اپنا خام تیل بیچتے ہیں جبکہ وینزویلا
تیل صاف کرکے پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرتا ہے
جس میں منافع کی شرح خام مال سے
بہت زیادہ ہے۔ خیال ہے کہ CITGOکی سالانہ بکری 10 ارب ڈالر ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے
کہ CITGOکی امریکہ سے ہونے والی آمدنی وان گیدو کے حوالے کردی جائیگی لیکن وینزویلا
کے اسٹیٹ بینک پر ابھی تک صدر مدورو کا
کنٹرول ہے اسلئے فی الحال CITGOکی آمدنی اور مالیاتی آثاثے
منجمد کئے جاسکتے ہیں یعنی وینزویلا کے اربوں
ڈالر امریکہ کے بینکوں میں پھنسے
رہیں گے اور انجماد کے دوران سود سے امریکہ کے ساہوکاروں کی چاندی ہوگی۔ گویا جب
تک وینزویلا میں صدارت کا فیصلہ نہیں ہوتا امریکی بینک CITGOکے فنڈ سے روپئے کی آٹھ چونیاں
بنائیں گے۔ وہ کہتےہیں نہ کہ چھرا خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھرے پر کٹتا بیچارہ
خربوزہ ہی ہے۔ کاش تیسری دنیا کے سیاستدانوں کو یہ بات مجھ آجائے۔
No comments:
Post a Comment