سوڈان میں ہنگامے
4 کروڑ نفوس پر مشتمل شمال مشرقی افریقہ کے ملک
سوڈان میں حالیہ ہنگاموں کا آغاز 19 دسمبرکو اسوقت ہوا جب حکومت نے روٹی کی قیمتوں
میں 3 گنا اضافہ کردیا۔ سوڈان ایک عرصے سے معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ سوڈانی پونڈ
گراوٹ کا شکار ہے اور افراطِ زر کی شرح 70 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ مہنگائی اور
بیروزگاری دونوں عروج پر ہیں۔حسب روائت حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کے ذریعے
کچلنے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں دارلحکومت خرطوم میں ہونے والا مظاہرہ ایک ملک
گیر تحریک بن گیا اور اتنا اہی یہ ابھرے گا جتنا کہ
دبا دینگے کے مصداق قوت کے استعمال سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔ اب مہنگائی و
کرپشن کے ساتھ سوڈانی صدر عمر البشیر کو اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ بھی شروع ہوگیا
ہے۔ گزشتہ دوہفتوں سے پورے ملک میں آزادی، امن اور انصاف کیساتھ"ارحل یا بشیر
" (بشیر چلے جاو) کے نعرے بھی گونج رہے ہیں۔ یادش بخیر اسی قسم کے نعرے عرب
اسپرنگ کے دوران تیونس، لیبیا اور مصر میں بھی سنائی دئے تھے جسکے بعد وہاں کی
حکومتیں تحلیل ہوگئیں۔ اب تک ان ہنگاموں میں پولیس والوں سمیت 40 افراد ہلاک ہوچکے
ہیں جبکہ ہزاروں گرفتار ہیں۔ جنرل عمرالبشیر 1989
سے سوڈان کے سربراہ ہیں۔آج
دارلحکومت میں ہزاروں لوگوں نے جنرل عمر البشیر کے حق میں مظاہرہ کیا جس سے خطاب
کرے ہوئے جنرل صاحب نے کہا کہ انھیں سوڈانیوں کی اکثریت سے صدر منتخب کیا ہے اور
وہ چند شرپسندوں کے مطالبے پر مستعفی نہیں ہونگے۔ انھوں نے مخالفین کو مشورہ دیا
کہ وہ عوام کی زندگی اجیرن کرنے بجائے اگلے برس انتخابات کی تیاری کریں۔ حکومت کے
حامیوں نے صدر کی حمائت میں مزید مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ آج صدر البشیرکی ریلی
سے کچھ ہی فاصلے پر مخالفین نے ارحل یا بشیر کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ اب تک صدر کے
حامیوں اور مخالفین میں تصادم کی کوئی خبر نہیں ملی لیکن اگر دونوں طرف سے مظاہروں
کا سلسلہ جاری رہا تو تصادم، سر پھٹول اور خدانخواستہ خانہ جنگی کی صورتحال بھی
پیدا ہوسکتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ صدر عمرالبشیر مستعفی ہوکر قبل ازوقت صدارتی
انتخاب کی صورت میں اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کردیں۔
No comments:
Post a Comment