شام میں ترک امریکہ
تنازعہ
ترک
وزیرخارجہ مولت اوغلو نے بہت ہی غیر مبہم
انداز میں کہا ہے کہ اگر شام میں امریکی فوج نے کرد دہشت گردوں کی پشت پناہی جاری رکھی تو ترک فوج خود کاروائی کریگی۔ انھوں نے کہا کہ ترک
فوج کی جانب سے کردوں کے قتل عام کے احمقانہ بہانے کے نام پر شام سے امریکی
فوج کی واپسی میں تاخیر ہمارے لئے قابل
قبول نہیں اور ترک افواج ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے۔ ترک وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکہ
کے اتحادی دہشت گرد گروہ YPGکے خلاف ترک فوج اپنی کاروائی جاری رکھے گی اور امریکی فوج
کے انخلا یا رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ اگر YPG ترک شام سرحد سے پیچھے ہٹ جائیں
تو ترکی کو اعتراض نہ ہوگا۔ ہم جنگ
اور بات چیت دونوں کیلئے تیار ہیں۔
گزشتہ دنوں علاقے
کا دورہ کرنے والے امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن
کے YPG کے حق میں بیان
پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک
صدر نے جان بولٹن سے ملنے سے ا نکارکردیا۔
اسکے دوسرے ہی دن امریکی وزیرخارجہ
جان پومپیو علاقے
میں تشریف لائے اور اربیل (عراقی کردستان) میں سفارتی بقراطی بگھارتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ کرد ترک تنازعے کے حل کیلئے دونوں فریقوں
سے رابطے میں ہے۔ جس پر
ترک وزارت خارجہ نے ترنت جواب دیا کہ
ہمارا کرد بھائیوں سے کوئی تنازعہ
نہیں باقی رہے دہشت گرد تو ان سے
نمٹنا ہمیں آتا ہے، جناب پومپیو کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
خبر
گرم ہے کہ ترک حکومت کی ناراضگی دور کر نے کیلئے صدر ٹرمپ خود ترکی جانے کی تیاری
کرررہے ہیں اور اگر حکومت ٹھپ ہونے کی
آفت نہ آتی تو شائد انکا فروری کے آغاز پر انقرہ جانے کا
ارداہ تھا۔
No comments:
Post a Comment