Tuesday, January 22, 2019

طالبان اور پاپائیت


منفی کوششیں  
افغانستان کے CEO  ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ آجکل  ڈیوس  (سوئٹزرلینڈ) کی اقتصادی کانفرنس میں شریک ہیں۔ کل انھوں نے ماہرین کو افغان امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں  سے آگاہ کیا۔ انکا اصرار اس بات پر تھا کہ طالبان کو افغان حکومت سے  براہ راست بات کرنی چاہئے۔ اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن  اس کا احترام لازمی ہے۔ تاہم انھوں نے طالبان کے موقف کی جس طرح  وہاں  وضاحت فرمائی  وہ  نہ صرف حقیقت کے خلاف تھی بلکہ انکے انداز سے ایسا لگا کہ ڈاکٹر صاحب مغرب کے مزاج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خوف پھیلا کر طالبان کے خلاف عالمی عائے عامہ ہمورا کرنے کی کوششوں میں مصروف  ہیں۔
انھوں نے کہا کہ  'طالبان شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں  جو مروجہ نظام ِ حکمرانی سے بالکل مختلف ہے۔ اس نظام کے تحت مذہبی  علما  آپس میں ایک امیر کا انتخاب کرلیتے ہیں اور اس امیر کی غیر مشروط اطاعت  پورے ملک کیلئے لازم ہے۔' عبداللہ عبدللہ   کا سیاسی تعلق جمیعت اسلامی سے ہے اور وہ اپنی جماعت کے امیر   پروفیسر برہان الدین ربانی مرحوم کے بہت قریب رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب   مولانا مودودی سے متاثر ایک  عالم دین تھے  اور انھوں نے اسلامی نظام  حیات  پر کئی کتابچے لکھے ہیں۔   پروفیسر صاحب سے  سیاسی رفاقت کی بنا پر عبداللہ عبداللہ کوبھی اسلامی شریعت کے بارے میں  یقیناًمعلوم ہوگا۔
طالبان کے حالیہ امیر مولوی ہبت اللہ بہت ہی مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی فوجی انخلا کے فوراً بعد ملک میں انتخابات کروائے جائینگے تاکہ افغان عوام اپنے نمائندوں کا چناو کرسکیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مملکت کے معاملات  تمام طبقات کی مشاورت سے چلائے جائینگے اور موجودہ پارلیمان کے ولسی جرگہ (قومی اسمبلی) اور مشرانوجرگہ (سینیٹ) کو مزید با اختیار بنایا جائیگا۔ مولوی صاحب کی نیت پر شک  کیا جاسکتا ہے لیکن انکے پالیسی بیانات  سے تو ایسا لگتا ہے کہ طالبان  پاپائیت   (پادریوں کی حکمرانی)کے اجرا کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جسکے تصور ہی سے یورپ کے لوگ کانپ اٹھتے ہیں۔  ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے  طالبان  کے مجوزہ نظام کو  پاپائیت   کے اسلامی ایڈیشن  کے طور پر پیش  کرکے یورپ کو غیر ضروری خوف  میں مبتلا کرنے  کی کوشش کی جو صریح بددیانتی ہے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ  ڈیوس کانفرنس کے منتظمین  کابل انتظامیہ کے ساتھ    طالبان کو بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دیتے کہ  یہی اظہارِ رائے کی آزادی، مثبت  تبادلہ خیال اور جمہویت کا تقاضہ ہے  ۔

No comments:

Post a Comment