وضاحت
کراچی میں گھروں کے انہدام پر میری پوسٹ سے کئی احباب بہت مشتعل ہیں اور انکا خیال ہے کہ میں پیپلزپارٹی یا نوازلیگ کا حامی ہوں۔ جو احباب مجھے جانتے ہیں انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم بھٹو کے خلاف اسوقت میدان میں تھے جب انکا اقتدار بلکہ جبرو استبداد نصف النہار پر تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان یورپ کی رنگینیوں میں کھوئے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ الحمداللہ بنگلہ دیش نامنظور تحریک، ختم نبوت اور 1977کی دھاندھلی کے خلاف عملاً حصہ لیا اور آزمائش بھی برداشت کی۔ نواز اقتدار کے خلاف بھی اسوقت میدان میں تھے جب عمران خان ان سے شوکت خانم ہسپتال کیلئے چندہ مانگ رہے تھے، عمران خان کا سیاسی کیریر 22 سال ہے جبکہ میں 1970 سے ایک سرگرم سیاسی کارکن ہوں۔
کراچی میں گھروں کے انہدام پر میری پوسٹ سے کئی احباب بہت مشتعل ہیں اور انکا خیال ہے کہ میں پیپلزپارٹی یا نوازلیگ کا حامی ہوں۔ جو احباب مجھے جانتے ہیں انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم بھٹو کے خلاف اسوقت میدان میں تھے جب انکا اقتدار بلکہ جبرو استبداد نصف النہار پر تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان یورپ کی رنگینیوں میں کھوئے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ الحمداللہ بنگلہ دیش نامنظور تحریک، ختم نبوت اور 1977کی دھاندھلی کے خلاف عملاً حصہ لیا اور آزمائش بھی برداشت کی۔ نواز اقتدار کے خلاف بھی اسوقت میدان میں تھے جب عمران خان ان سے شوکت خانم ہسپتال کیلئے چندہ مانگ رہے تھے، عمران خان کا سیاسی کیریر 22 سال ہے جبکہ میں 1970 سے ایک سرگرم سیاسی کارکن ہوں۔
غریبوں اور انکی کچی بستیوں سے میرا جذباتی تعلق ہے
کہ میں نے ایک کچی بستی ہی میں آنکھ کھولی ہے جو میرے ہوش سنبھالنے کے بعد مستقل
کی گئی۔میں جس گھر میں پل کر جوان ہوا اسکے تینوں طرف نالے تھے چوتھی سمت نالی
اسلئے نہیں بن سکی کہ وہ دیوار میرے چچا کے گھر سے ملی ہوئی تھی۔جب بھی تیز بارش
ہوتی تو گلی کا غلیظ پانی ہمارے انگن تک آجاتا تھا۔ برسات میں نیم پختہ گھر کی چھت
چھلنی کی طرح ٹپکتی تھی۔
بعد میں اللہ نے اپنے فضل سے وسعت و خوشحالی عطاکی اور اردو کالج کے لائبریرین کا بیٹا ایک بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کا جنر ل منیجر بن گیا لیکن میں اب بھی اپنے ماضی سے وابستہ ہوں اور مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی شرم نہیں کہ میرے والد صاحب اردو کالج اسلئے پیدل آتےاور جاتے تھے کہ کرائے کے چارآنے کی بچت بھی انھیں بہت محسوس ہوتی تھی۔
بعد میں اللہ نے اپنے فضل سے وسعت و خوشحالی عطاکی اور اردو کالج کے لائبریرین کا بیٹا ایک بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کا جنر ل منیجر بن گیا لیکن میں اب بھی اپنے ماضی سے وابستہ ہوں اور مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی شرم نہیں کہ میرے والد صاحب اردو کالج اسلئے پیدل آتےاور جاتے تھے کہ کرائے کے چارآنے کی بچت بھی انھیں بہت محسوس ہوتی تھی۔
میری وابستگی غریبوں سے ہے کہ میرا قابل فخر ماضی تنگ
و تاریک اور متعفن لیاری سے وابستہ ہے۔ دل کی بات عرض کروں کہ نظریات اورعقیدے کے
علاوہ جماعت اسلامی سے جذباتی وابستگی کی وجہ بھی غربت سے معمور میرا ماضی ہے کہ
کس جماعت میں ایک مزدور کا بیٹا (سراج الحق) پارٹی کا سربراہ، رکن صوبائی اسمبلی
اور سینئر صؤبائی وزیر بن سکتا ہے۔ کون سی جماعت ہے جو جوتے پہنانے والے عبدالستار
افغانی کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا دوبار میئر بناسکے ؟
مکانوں کے ٹوٹنے پر میرا دل اسلئے ٹوٹ رہا ہے کہ جب
میں کنواری کالونی، کیماڑی، مچھر کالونی اور دوسری کچی بستیوں میں غریبوں کے گھر
مسمار ہونے کی خبر سنتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہارکالونی کے میرےنیم
پختہ گھر کی چھت گرائی جارہی ہے۔ شہر کو خوبصورت بنانے کیلئے غریبوں کے گھر اجاڑنا
ایسا ہی ہے جیسے خاندان کی بچیوں کے جسم سے کپڑے نوچ کر گھر کی دلہن کا عروسی جوڑا
تیار کیا جائے۔ اس بات کو سونے کا چمچہ منہہ میں لیکر پیدا ہونے والے عمران خان
سمجھ سکتے ہیں نہ زرداری و نواز شریف اور نہ ہی ہماری عدالت کے کٹھور جج جنھیں اس
بات کا غم کھائے جارہا کہ کراچی اتنا بھدا ہوگیا ہے کہ اب یہاں فلموں کی عکس بندی
نہیں ہوسکتی۔
No comments:
Post a Comment