مشتری ہشیار باش
احباب
سے گزارش ہے کہ ٖافغانستان میں امن کے حوالے سے بہت زیادہ توقعات نہ باندھیں۔ یہ
تو ایک حقیقت ہے کہ طالبان کو جنگ کے میدان اور مذاکرات کی میز دونوں جگہ برتری
حاصل ہے لیکن ایک دیرپا امن معاہدے کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ امن معاہدے کے حوالے
سے امریکیوں کی صفوں میں یکسوئی نہیں اور انتظامیہ کے مختلف شعبہ جات میں شدید
ابہام پایا جاتا ہے۔
صدر
ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی حالیہ مذاکرات کو ہتھیار ڈالنے کی باوقار تقریب قراردے رہی ہے۔ پارٹی کے سینر رہنما لنڈسے گراہم
کا خیال ہے کہ طالبان پسپا ہوتی نیٹو فوج
کیلئے محفوط راستے کے سوا اور کچھ دینے کو تیار نہیں۔ یہ ملا نہ تو فوجی اڈوں پر
راضی ہورہے ہیں اور نہ ہی امریکہ نواز کابل انتظامیہ سے شرکتِ اقتدار پر۔ ملاحضرات
افغان سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک کے
خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت دینے کو تیار ہیں لیکن اس عہد کی پاسداری کو
جانچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ ریپبلکن قیادت کو ڈر ہے کہ اگر امریکی فوج غیر
مشروط طور پر افغانستان سے لوٹ آئی تو کل کویہ مولوی تاوان جنگ کا دعویٰ بھی
کرسکتے ہیں۔
اسی بنا پر لنڈسے گراہم چاہتے ہیں کہ طالبان کو
دباو ڈال کر کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر مجبور کیا جائے تاکہ ہتھیار ڈالنے کا
تاثر نہ پیدا ہو۔ اس سلسلے میں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان موثر کردار اداکرسکتا ہے
اور موجودہ معاشی پریشانیوں کے تناظر میں پاکستان سے یہ 'خدمت' لی جاسکتی ہے۔
انھیں یہ بھی پتہ ہے پاکستانی قیادت
تعریف کی خوگر ہے اور قربت کا لارا دے کر بہت سارے کام نکالے جاسکتے ہیں۔ احباب کو
یاد ہوگا کہ پرویز مشرف بڑے فخر سے کہتے تھے کہ صدر بش کا پرائیویٹ نمبر انکے پاس
پے اور وہ جب چاہیں امریکی صدر سے براہ راست بات کرسکتے ہیں۔ جب میاں نواز شریف نے
انتخابات میں کامیابی پر صدر ٹرمپ کو مبارکباد کیلئے فون کیا تو شکرئے کے ساتھ صدر
ٹرمپ نے نوازشریف کی تعریف میں چند رسمی جملے کہہ دئے۔ ان روائتی اور رسمی جملوں
کو سرکاری اعلامئے میں اسطرح بیان کیا گیا جیسے صدر ٹرمپ نوازشریف کواس صدی کا عظیم ترین رہنما سمجھتے
ہیں۔
اب
سینیٹر گراہم نے شیشے میں اتارنے کیلئے جناب
عمران خان کے کانوں میں شہد گھولنا شروع کردیاہے۔ کیا عجب کی امن کے نوبل انعام کے
وعدے پر ان سے کوئی اہم کام کروالیا جائے۔حال ہی میں فاضل سینیٹر نے فرمایا کہ افغانستان میں امن کا
قیام عمران خان کا دور حکومت میں ہی ممکن ہے۔ اس تعریف پر محمود قریشی اور فواد
چودھری خوشی سے نہال ہیں۔ حال ہی میں قریشی صاحب نے تکبر سے چور لہجے میں فرمایا کہ
'طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا'۔طالبان کے سینئر
رہنما حافظ محب اللہ محب کی پشاور میں گرفتاری مولویوں پر دباو ڈالنے کی ایک کوشش
ہے۔
اس سے
پہلے ترک ٹیلی ویژن TRTکو اپنے ایک
انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان طالبان
اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر
کرچکے ہیں۔ یہ اور بات کہ طالبان نے پاکستانی
وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے بیانات کو مجبوری کے تحت سیاسی و سفارتی جگالی سمجھ کر
نظر انداز کردیا۔
امریکہ
کی جانب سے زلمے خلیل زاد کی نامزدگی سے بھی واشنگٹن کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔
زلمے خلیل زاد روائتی سیکیولر عناصر کی طرح مولویوں کے بارے میں نفرت کی حد تک
منفی جذبات رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ملا بھی زلمے کو ناقابلِ اعتماد اور جھوٹا سمجھتے
ہیں۔ سب سے بڑھ کر زلمے بے اختیار ہیں۔
مذاکرات میں بار بار کے تعطل کی وجہ یہ بھی ہے کہا انھیں کسی بھی معاملے پر اپنی
رائےدینے سے پہلے واشنگٹن سے منظوری لینی ہوتی ہے۔
نیک
نیتی پر شک کی ایک اور وجہ مذاکرات کی غیر ضروری طوالت ہے۔ گزشتہ ہفتے چھ روزہ
مذاکرات کے بعد امید تھی کہ 28جنوری کو بات چیت دوبارہ شروع ہوگی لیکن اب کہا
جارہا ہے کہ بات چیت کے نئے سلسلے کا آغاز فروری کے اختتام پر ہوگا۔
کابل
کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کو موخر کر کے میدان میں برسرپیکار طالبان
کی توجہ بٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چھاپہ ماروں کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ لڑائی
تقریباً ختم ہوچکی لہذا اب ہتھیار رکھ کر نئے بندوبست میں اپنا مقام بنانے کی فکر
کرو۔گوریلا سپاہی جب ایک بار اپنے ہتھیار سے غافل ہوجائے تو اسے دوبارہ سربکف کرنا
اتنا آسان نہیں۔ طالبان کو دشمن کی اس حکمت عملی کا اندازہ ہوچکا ہے۔تحریک طالبان
کے سربراہ ملا ہبت اللہ نے اپنے ساتھیوں
کو چوکنا رہنے کی ہدائت کی ہے۔ انکے ترجمان کے مطابق ملا صاحب نے فوجی کمانڈروں کو
اپنی پوزیشنیں مضبوط کرنے اور موسم بہار کی تیاری جلد از جلد مکمل کرلینے کا حکم
دیاہے۔ طالبان ہر سال برف پگھلنے کے بعد فروری کے اختتام سے افغان اور نیٹو چوکیوں
پر تابڑ توڑ حملے کرکے موسم بہار جنگی مہم کا آغاز کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment