جلیانوالہ باغ قتلِ عام کی 100 ویں برسی
آج 13 اپریل جلیانوالہ سانحے کی 100 ویں برسی ہے جب 1919 میں اسی روز امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں
بلا اشتعال فائرنگ کرکے سینکڑوں لوگوں کو
ہلاک اور ان گنت شدید زخمی کئے گئے۔
ساڑھے چھ ایکڑ پر مشتمل یہ باغ سکھوں کے روحانی مرکز دربارصاحب المعروف
گولڈن ٹیمپل کے قریب واقع ہے اور
سکھ تہواروں کے موقع پریہاں زائرین کی بڑی
تعداد موجود رہتی ہے۔
مارچ 1919 میں برطانوی راج نے Anarchical and
Revolutionary Crimes Act of 191نافذ کردیا۔یہ بدنام زمانہ قانون Rawlatt Act کہلاتا ہے کہ
اسکی تدوین کرنے والی کمیٹی کے سربراہ انگریز جج
سڈنی راولٹ تھے۔ جیسا
کہ نام سے ظاہر ہے یہ کالا قانون دراصل شہری حقوق کی تنسیخ کا حکم نامہ تھا۔ جسکے
تحت جلسے جلوس اور سلطنت برطانیہ کے
خلاف اخبارات میں کچھ بھی لکھنا قبل دست اندازی پولیس قرارپایا۔ ہندوستانیوں
میں اسکے خلاف شدید ردعمل تھا۔
اس قانون کے خلاف بیرسٹر سیف الدین کچلو خم ٹھوک کر میدان میں آئے۔ 31 برس کے کچلو صاحب
کا تعلق کشمیر کے علاقے بارہ مولا سے تھا۔ انکے آباواجداد برہمن تھے جنکا پارچہ جات کا بہت بڑا کاروبار تھا۔
کچلو صاحب کے دادا مسلمان ہوگئے اور ہندووں کی انتقامی کاروائی سے پریشان
ہوکر امرتسر چلے آئے ۔ سیف الدین کچلو بچپن ہی سے سیاست کی طرف مائل تھے چنانچہ والد
کے اصرار کے باوجود انھوں نے کاروبار میں کوئی دلچسپی نہ لی اور پڑھنے لکھنے میں
مگن رہے ۔ جامعہ کیمبرج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور مزید تعلیم کیلئے جرمنی چلے
گئے جہاں سے انھوں نے عالمی قانون میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ تعلیم کے بعد
ہندوستان واپس آکر وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ تحریک آزادی کا حصہ بن گئے۔ہندوستان کی
سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے عرض ہے کہ دوسرے بہت سارے مسلم رہنماں کی
طرح کچلو صاحب بھی گاندھی جی کے چہرے پر پڑے یکجہتی کے نقاب کے پیچھے انکا گھناونا
چہرہ دیکھنے میں کامیا ب ہوگئ۔ کانگریس سے کنارہ کش ہوکر تحریک خلافت کے کارکن بن گئے اور مجموعی طور پر 14 برس سلاخوں
کے پیچھے گزارے۔
جب راولٹ ایکٹ نافذ ہوا اس سے کچھ ہی دن پہلے کچلو
صاحب امرتسرکے مونسپل کمشنر منتخب ہوئے تھے ۔ سیف الدین کچلو
نے دوسرے وکلا کے ساتھ مل کر راولٹ ایکٹ کے خلاف مہم چلائی اور سارے پنجاب کو
طوفانی دورہ کرکے اس سیاہ قانون کے خلاف
زبردست تحریک شروع کردی۔ چنانچہ کچلو صاحب کو گرفتار کرکے شہر بدر کردیا گیا۔
اپنے رہنماوں کی شہر بدری پر عوام میں سخت
اشتعال پھیلا اور 13 اپریل 1919کو جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ عام کاعلان
کیا گیا۔ اس وقت اس باغ کے ایک بڑے مرکزی دروازے کے علاوہ اندر جانے کیلئے 4 چھوٹے
گیٹ تھے۔ یہ بیساکھی میلے کا وقت تھا اسلئے باغ میں سکھ زائرین کی بھی بڑی تعداد
موجود تھی۔ جب اس جلسے کی اطلاع امرتسر
چھاونی کے بریگیڈئر جنرل ریجینلڈ ڈائر (Reginald
Dyer) کو پہنچی تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ گورکھا، بلوچ اور راجپوت سپاہیوں کو لیکروہ جلیانوالہ باغ پہنچا جہاں ان لوگوں نے مرکزی گیٹ
پر مورچہ لگایا۔ جنرل ڈائر کی جانب سے 'فائر' کے حکم پر بلااشتعال و انتباہ فائرنگ شروع کردی۔ جب لوگ جان بچانے کو
دروازوں کی طرف بھاگے توسپاہیوں نے چاروں دروازوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ اسکے نتیجے
میں جو بھگڈر مچی اس میں سینکڑوں لوگ کچل
کر ہلاک ہوئے۔سرکاری اعلان کے مطابق اس
واقعے میں 379افراد ہلاک اور 600 زخمی ہوئے لیکن درحقیقت فائرنگ اور بھگڈر کی وجہ سے1600 لوگ مارے گئے
جبکہ 1500 افراد شدیدزخمی ہوئے۔
بعد میں پتھر دل جنرل ڈائر نے اپنے افسر کو
کامیابی کاروائی کی رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کا مقصد مجمع کو منتشر کرنا نہیں تھا بلکہ وہ
حاضرین کو سلطنت برطانیہ کی حکم عدولی پر سزا دینا چاہتا تھا۔اس قتل عام کے خلاف
خود برطانوی پارلیمان میں بھی احتجاج ہوالیکن آخر میں جنرل ڈائر کی معمولی سی گوشمالی (Censure) کے بعد انھیں
ریٹائر کردیا گیا۔
ہندوستانی حکومت اور انسانی حقوق کے ادارے ایک عرصے سے برطانیہ پر معافی مانگنے کیلئے دباو ڈال رہے ہیں
لیکن افسوس کا اظہار کرنے کے باوجود غرور میں مبتلا برطانیہ اس صریح ظلم پر معافی مانگنے کو تیار نہیں۔کل
جب اس واقعے کی 100 ویں برسی پر ہندوستان
میں برطانیہ کے ہائی کمشنر(سفیر) ڈومینک اسکتھ Dominic
Asquith یادگار
پر پھولوں کی چادر چڑھانے آئے تو عوام نے معافی معافی کے نعرے لگائے جس پر سفیر
صاحب نے بقراطی جھاڑی کہ کاش ہم تاریخ دوبارہ لکھ سکتے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ یہ
ایک افسوسناک واقعہ ہے جس پر ہمیں بھی
ہندستانیوں کی طرح شدید صدمہ ہے۔اس سے پہلے جب 1997میں ملکہ برطانیہ ہندوستان آئیں
تب بھی یادگار کا دورہ کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا لیکن
انھوں نے معافی مانگنے سے انکار کردیا اوراس موقع پر انکے شوہر نامدارشہزادہ فلپ نے
یہ کہہ کر زخموں پر نمک چھڑک دئے کہ جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہے تو افسوسناک لیکن
اس میں مارے جانیوالوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی ہندوستانی بیان کررہے ہیں۔
۔
No comments:
Post a Comment