Thursday, April 25, 2019

تیل و گیس کی پاکستانی صنعت


تیل و گیس کی پاکستانی صنعت
اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 8 ماہ کے دوران پاکستان نے خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا قیمتی رزمبادلہ خرچ کیا۔ پاکستان کو اپنی ضرورت کیلئے 4 لاکھ بیرل تیل یومیہ کی ضرورت ہے جبکہ ملکی پیداوار کا تخمینہ 84000 بیرل روزانہ ہے۔ یعنی پاکستان اوسطاً 3 لاکھ 16 ہزار بیرل یومیہ درآمد کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں موجود تیل صاف کرنے کے کارخانے (Refineries)لطیف یا (light)تیل صاف کرنے صلاحیت نہیں رکھتے اسلئے ملک کے کنووں سے نکالا جاینوالا 20 ہزار بیرل لطیف تیل برآمد کردیا جاتا ہے۔آج کے دن عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 66 ڈالر فی بیرل ہے۔ اگر لطیف تیل کی برآمد سے ہونے والی آمدنی کو منہا کردیا جائے تو  پاکستان اپنی گاڑیوں اور صنعت کے پہیوں کو رواں رکھنے کیلئے تیل کی درآمد پر ہر روز ایک کروڑ 95 لاکھ ڈالر سے زیادہ خرچ کررہا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم نے تیل پر روزانہ خرچ کا تخمینہ تیل کے عالمی یا امریکی برانڈ یعنی WTIکی قیمتوں کی بنیاد پر ترتیب دیا ہے جبکہ پاکستان اپنی ضرورت کا بڑا حصہ سعودی عرب، کوئت اور متحدہ عرب عرب امارات سے حاصل کرتا ہے جو  اوپیک باسکیٹ کے نرخ پر فراہم کیا جاتا ہے اور اوپیک باسکیٹ کی فی بیرل قیمت WTIسے تقریباً 8 ڈالر فی بیرل زیادہ ہے۔
ملک کی سالانہ درآمدات کا حجم 55 ارب ڈالر کے قریب ہے جسکا مطلب ہوا کہ 20 کروڑ عوام کے خون پسینے سے کمائے ہوئے قیمتی زرمبادلہ کا 18 فیصد خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہورہا ہے۔اس اعتبار سے تیل و گیس کا شعبہ پاکستانی عوام کی خوشی و خوشحالی کیلئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کی نشست میں تیل کی ضرورت اور تیل وگیس کے وسائل کی ترقی کیلئے اب تک کئے جانیوالے اقدامات کا جائزہ بھی لیا جائیگا۔ اور آخر میں خود کفالت کے حوالے سے کچھ گفتگو ہوگی۔ 
وطن عزیر میں خود احتسابی کے نام پر 'خودملامتی' کا چلن عام ہو گیا ہے اور اپنے رواج، اقدار اور نظام کو بوسیدہ کہنا کلمہ حق سمجھ لیا گیا۔ بلاشبہ کمزوریوں سے آنکھیں چراکر خواب اور خوش فہمی میں مبتلا رہنا کوئی مثبت طرزعمل نہیں لیکن ہروقت خود کو کوسنا، بے جا تنقید اور اپنی ہر چیز کی توہین زندہ قوم کا شعار نہیں۔ تیل و گیس کی صنعت کے حوالے سے ہماری تاریخ کامرانیوں اور کامیابیوں سے بھری پڑی ہے جس میں سے چند نکات کچھ اسطرح ہیں:
·        دور جدید میں تیل کی تلاش کیلئے پہلا کنواں 1859میں امریکی ریاست پنسلوانیہ میں کھودا گیا تھا جبکہ موجودہ پاکستان میں تیل کیلئے پہلی کھدائی 1866میں ہوئی اور کندل(میانوالی) کے علاقے میں کنویں کھودے گئے گویا تجربے کے اعتبار سے اس ٹیکنالوجی میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے اور فرق بھی صرف سات سال کا ہے۔
·        1886میں کوئٹہ کے قریب 25ہزار بیرل تیل زمین سے نکالا گیا جو عالمی ریکارڈ ہے
·        اس علاقے میں تیل کی تجارتی بنیادوں پر پہلی دریافت 1915میں ہوئی جب ضلع اٹک کے مقام کھوڑ پر تیل دریافت ہوا۔ اس میدان سے اب تک 50 لاکھ بیرل تیل نکالا جاچکا ہے اورکھوڑ نمبر1 نامی کنواں آج بھی موجود ہے۔
·        گیس کی پہلی بڑی دریافت 1954میں سوئی کے مقام پر ہوئی۔یہ حقیقت شائد بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی میں جب پاکستان میں گیس کی تقسیم کیلئے پائپ لائن بچھائی گئی اسوقت الاسکا (Alaska)پائپ لائن کے بعد یہ دنیا کی سب سے طویل پائپ لائن تھی
·        دور جدیدکی پہلی گیس پائپ لائن 1906 میں باکو( آذربایئجان) سے بحر اسود کی بندرگاہ تک بچھائی گئی۔ اس پائپ لائن کی لمبائی 833 کلومیٹر تھی جسکے صرف پچاس سال بعد پاکستان میں گیس  کی پائپ لائن ڈالی گئی اور اس نیٹ ورک کی مجموعی لمبائی ساڑھے سات ہزار کلومیٹر یے۔
·        جب 1959میں صدر ایوب خان راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل (پرل کانٹینینٹل) میں گیس گیزر کا افتتاح کر رہے تھے اسوقت لندن سمیت سارے یورپ میں گھروں کوگرم رکھنے کیلئے کوئلہ استعمال ہوتا تھا۔
·        ہمارے یہاں سرکاری اداروں میں کرپشن کی شکائِت عام ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک پاکستان میں پائپ لائن کے حادثاتی طور پر پھٹنے کا ایک بھی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔ دہشت گردی  اور بات ہے۔ یہ پاکستانی انجنیروں کی استعداد ، دیانت، پیشہ ورانہ مہارت اور بے مثال کوالٹی کاثبوت ہے۔ امریکہ میں ہر سال پائپ لائن پھٹنے کے کم ازکم دو بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں۔
·        1967 میں جب الجزائر نے تیل کمپنی سوناطراخ  SONATRACHکو قومیانے کا منصوبہ بنایا تو  انکے لئے سب سے بڑا مسئلہ افرادی قوت کا تھا کہ سوناطراخ میں تمام کا تمام عملہ فرانسیسیوں پر مشتمل تھا جو اپنے ملک واپس جانے پر اصرار کر رہے تھے۔الجزائر کے صدر حواری بومدین نے جناب ذوالفقارعلی بھٹو سے رابطہ کیا جو اسوقت پاکستان کے وزیرخارجہ تھے لیکن اس سے پہلے وہ وزیرمعدنیات و توانائی رہ چکے تھے۔ سوناطراخ کی تعمیر نو کا سارا کام پاکستان ماہرین ارضیات اور مہندسین پٹرولیم نے انجام دیا ور جن لوگوں کو حاسی مسعود baseپر جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں سوناٹریک کی عمارت کے استقبالیہ پر ایک عرصے تک کمپنی کے بانی صدر سید احمد غزالی کے دستخط سے وہ دستاویز نصب رہی جس پر لکھا تھا 'ہم اس ادارے کی تعمیر کیلئے برادرملک پاکستان کے شکرگزار ہیں' ا یہ جملہ انگریزی، عربی اور فرانسیسی کے ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا گیا تھا۔
·        امریکہ، افریقہ، مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، یورپ، ایشیا اور دنیا کی کوئی رگ Rigاور تیل و گیس کاکوئی میدان ایسا نہیں جہاں پاکستانی ماہرین مصروف کار نہ ہوں۔ افریقہ و مشرق وسطیٰ کے تپتے ہوئےصحرا، عمیق بحرالکاہل، وحشت زدہ پاپوا نیو گنی، جدید ترین  بحرِ شمالی (نارتھ سی) اور خلیج میکسیکو ہر جگہ پاکستانی ماہرین مصروف عمل نظر آتے ہیں۔
تاہم اس شاندار ماضی کا افسوسناک پہلو یہ ہے آج جب ساری دنیا پاکستانی مہارت سے فائدہ اٹھارہی ہے خود وطن عزیز کو توانائی کے بحران سامنا ہے اور  تیل و پیڑولیم مصنوعات کی درآمدات پر 15 ارب ڈالر سالانہ خرچ کئے جارہے ہیں۔
پاکستان میں تہہ دار چٹانوں (Sedimentary Rocks) کا رقبہ 8 لاکھ 27 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔تیل و گیس کے روائتی میدان تہہ دار چٹانوں ہی میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم اس وسیع وعریض موقع اور تجربہ کار افرادی قوت کے باوجود 1866 میں پہلے کنویں کی کھدائی کے بعد سے اب تک یعنی 152 سالوں کے دوران مجموعی طور پر صرف2537 کنوویں کھودے گئے ۔ گویا  ہمارے یہاں تہہ دار چٹانوں کے کل رقبے میں کنویں کھودنے کا تناسب 3 فی 1 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اگرصرف آزمائشی (exploratory) کنووں کا جائزہ لیا جائے تو اب تک 1094آزمائشی کنویں کھودے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے  تلاش کا تناسب 1.3 فی 1 ہزار مربع کلو میٹر ہے حالانکہ عالمی معیار کے مطابق  اسے کم از کم 10 فی 1 ہزار مربع کلو میٹر ہونا چاہئے تھا۔ پاکستان میں تہہ دار چٹانوں کے صرف 38 فیصد رقبے پر تیل و گیس کی تلاش کیلئے قسمت آزمائی جارہی ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تلاش کے تناسب کو ساری دنیا میں ایک ہی طرح لاگو کرنا مناسب نہیں کہ اسکا تعلق ہر ملک کے بنیادی ڈھانچے اور کامیابی کے امکانات سے ہے تاہم اس سے ایک بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان میں تیل کی تلاش کا کام سست روی کا شکار ہے۔ دوسری طرف دنیا اب روائتی تہہ دار چٹانوں کے ساتھ غیر روائتی سلیٹی (Shale)چٹانوں سے بھی  تیل و گیس کشید کررہی ہے۔ امریکہ میں مجموعی پیدوار کا بڑا حصہ اب سلیٹی چٹانوں سے حاصل کیا جارہا ہے۔ سلیٹی چٹانوں کی ساخت اور ان میں موجود مساموں کی غیر نفوذ پزیری  (Impermeability) کی بناپر ان تلوں سے تیل نچوڑنے کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی اور حکمت عملی درکار ہے جسکی بنا پر سلیٹی میدانوں سے حاصل ہونے والے تیل کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔
سست رفتاری اور تلاش کے کام میں عدم دلچسپی کے باوجود یہاں کامیابی کا تناسب دس میں 2.8 ہے یعنی کھودے جانیوالے ہر 10 میں سے 2.8کنویں سے تیل و گیس کی منافع بخش مقدار دریافت ہوئی جبکہ عالمی سطح پر تیل و گیس کی تلاش میں کامیابی کا اوسط10میں 1 ہے۔
خشکی کے ساتھ سمندر میں تیل کی تلاش کا کام 1963 سے جاری ہے اوراب تک 16 کنویں کھودے جاچکے ہیں جبکہ سترہویں کنویں کیکڑا1 کی کھدائی تادم تحریر جاری ہے۔ اب تک مکرا ن سے متصل بحر عرب کے پانیوں میں 4اور Indusیعنی سندھ سے متصل پانیوں میں  12 کنووں کھودے گئے ہیں۔ ان میں سے OGDCکے ایک کنوویں PAKCAN-1سے گیس دریافت ہوئی جسکا آزمائش کے دوران بہاو 3.7ملین مکعب فٹ یومیہ تھا۔ تاہم 1985میں کھودے جانیوالے اس کنوویں پرگیس سے بھری چٹان کی موٹائی صرف 4 میٹر اور بہاو نسبتاً کم تھا اسلئے یہاں سے منافع بخش پیدوار ممکن نہیں۔ جب قارئین ہماری ان سطور کو شرف مطالعہ عطا کررہے ہونگے توقع ہے کہ اسوقت کیکڑا 1 پر ان چٹانوں کی کھدائی ہورہی ہوگی جنکے بارے میں ماہرین کو توقع ہے کہ یہ گیس سے مالامال ہیں۔ تاہم کامیابی کے بارے میں اسوقت کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔
پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش و ترقی کے کام میں سست روی کی بڑی وجہ سیاسی عزم (will)کا فقدان، قیادت کا بحران، امن و عام کی خراب صورتحال اور پالیسیوں کا عدم استحکام ہے۔ تیل و گیس کی تلاش انتہائی قیمتی مشغلہ ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ یہاں کامیابی کاامکان محض 10 سے 12 فیصد ہے۔لیکن چونکہ کامیابی کی صورت میں منافع بھی چھپرپھاڑ ہوتا ہے اسلئے سرمایہ کار بھاری سے بھاری خطرہ مول  لینےکو تیارہیں۔ اسی بناپر تیل کی صنعت میں لگائی جانیوالی رقم تجارتی اصطلاح  ڈوبی ہوئی سرمایہ کاری کہلاتی ہے۔تیل کی تلاش کیلئے گہری جیب، مضبوط اعصاب اور فولادی عزم کی ضرورت ہے۔
اسوقت پاکستان میں 18 سے زیادہ غیر ملکی ادارے کام کررہے ہیں۔ یہ کمپنیاں پاکستان میں کامیابی کیلئے پرامید ہیں ورنہ وہ یہاں بھاری سرمایہ کاری نہ کرتیں۔ یہ سرمایہ کار ٹیکنیکل خطرات  (Technical Risk) مول لینے کو تیار ہیں لیکن اصل رکاوٹ حکومتی رویہ ہے۔ سرکاری پالیسیوں میں تسلسل نہیں اور حکومت کے مختلف اداروں میں باہمی رابطے کا فقدان نظر آرہا ہے۔ بلکہ بسا اوقات توایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے مختلف شعبے سوکنوں کے انداز میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتے ہیں۔
تیل و گیس کی تلاش کیلئے بہت سے ایسے جدید ترین اوزار اور خدمات کی ضرورت ہے جو پاکستان میں موجود نہیں۔ یہ قیمتی سامان دوسرے ممالک سے کرائے پر منگائے جاتے ہیں۔ مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے  کرایہ انکی روانگی کیساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے اور فیکٹری  واپس پہنچنے تک جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں کسٹم کے فرسودہ نظام کی بنا پر یہ سامان ہفتوں بندرگاہوں پر پڑا رہتا ہے اور کسٹمز کے بابو کاغذی موشگافیوں کا سہارا لیکر انھیں وہیں روکے رکھتے ہیں جسکی بناپر تیل کمپنیوں کوایک طرف تو کرائے کی مد میں بھاری اخراجات کا سامنا ہے تو دوسری جانب حرجے خرچے کی شکل میں مزید مشکلات پیش آتی ہیں۔
امن و امان کی مخدوش صورتحال بھی تلاش کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بلوچستان کے بڑے علاقے میں کام ناممکن حد تک مشکل ہے اور جہاں کمپنیاں خطرہ مول لینے کوتیار ہیں وہاں سیکیورٹی کے اخراجات کی بناپر کنواں کھدائی سے پہلے ہی غیر منافع بخش ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں سیکیورٹی کی بنا پرغیر  ملکیوں کی آمدورفت محدود کردی گئی ہے اور ان علاقوں میں کام کرنے والے ماہرین کو خصوصی اجازت نامہ لینا ہوتا ہے۔ ان اجازت ناموں یا Security Permitsکا حصول جوئے شیر لانےسے کم نہیں۔
تیل و گیس کی تلاش اور کنووں کی کھدائی کے دوران خصوصی نوعیت کے تابکاری آلات (Nuclear Source)استعمال کئے جاتے ہیں۔ انکے حصول، درآمد، گودام اور نقل و حمل کیلئے Pakistan Nuclear Regulatory Authorityیا PNRA نے بہت موثر لیکن آسان فہم طریقے وضع کررکھے ہیں اور PNRAکے ماہرین اس ضمن میں تربیت بھی فراہم کرتے ہیں لیکن انکے نقل و حمل کے سلسلے میں مناسب معلومات نہ ہونے وجہ سے قانوں نافذ کرنے والے ادارے مشکلاٹ کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ جس سے کھدائی کام میں غیر ضروری خلل پڑتا ہے۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس ضمن میں اپنے اہلکاروں کی نہ تو تربیت کی ہے اور نہ ہی واضح ہدایات طئے کی ہیں چنانچہ ہر SHOصندق پر' جوہری' کا لفظ دیکھ کر ہی حواس باختہ ہوجاتا ہے جسکی وجہ شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔
کنووٰں پر Casingsمیں سوراخ کرنے کیلئے خاص انداز کا بارود (explosives)بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہر نئے وزیرداخلہ کے دور میں بارودکی درآمد، اسے بحفاظت ذخیرہ کرنے اور استعمال کےحساب و کتاب رکھنےکا طریقہ کار تبدیل کردیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسابھی ہوا کہ دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کے بعد  تاحکم ثانی explosivesکی درآمد اور نقل و حمل پر مکمل پابندی لگادی گئی حالانکہ یہ بارود کچھ ایسے انداز میں بنائے گئے ہیں کہ  وہ صرف بجلی کے مخصوص کرنٹ سے فائر ہوتے ہیں اور کسی اور مقصد کیلئے استعمال ہی نہیں ہوسکتے۔
سمندر میں تیل کی تلاش و ترقی کا کام اسلئے اور بھی زیادہ مشکل ہے کہ کسٹمز اور بندرگاہ کے عملے کو اسکا اندازہ ہی نہیں۔ سمندر میں کام کرنے والی رگوں پر اوزارو سامان ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے لہٰذا ساحلوں پر عارضی گوداموں میں رکھا ہوا سامان  بوقتِ ضرورت کشتیوں پر رگ کی طرف روانہ کیا جاتا ہے۔پاکستان میں کسٹم حکام نے بندرگاہ سے باہر جانیوالی کشتی یا جہاز پر لدے سامان کو برآمد اور آنے والے سامان کو درآمدات تصور کررکھا ہے۔ نتیجے کے طور پر رگ روانگی سے پہلے اس سارے سامان کو عام برآمدات کی طرح کاغذی کاروائی، جانچ پڑتال، مالی تشخیص (Assessment) وغیرہ کے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کئی دن بلکہ تعطیلات کی صورت میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال رگ سے واپس آنے والے استعمال شدہ سامان کا ہوتا ہے جنھیں درآمدات کی آزمائش برداشت کرنی پڑتی ہے۔
ساحل سے رگ تک آنے جانے کیلئے جو ہیلی کاپٹر استعمال ہوتے ہیں ان کی پرواز سے پہلے محکمہ شہری ہوبازی، محکمہ داخلہ و خفیہ ایجنسیوں اور وزارت دفاع سے خصوصی اجازت ضروری ہے جسمیں وقت اور پیسہ خرچ ہوتاہے۔ گزشتہ دنوں ہندوستان سے کشیدگی کی بناپر کیکڑا کیلئے ہیلی کاپٹر کی پروازوں پر پابندی لگادی گئی۔ یہ رگ کراچی سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور کشتی پر یہ راستہ 19 گھنٹے میں طئے ہوتا ہے۔ناہموار سمندر میں سرکش لہروں پر  یہ طویل سفر ایک عذاب سے کم نہیں اور Sea Sicknessنے کارکنوں کو ادھ موا کردیا۔
اس قسم کی مشکلات سرمایہ کاروں کیلئے حوصلہ شکنی کا سبب بن رہی ہیں جسکی وجہ سے ماضی قریب میں آسٹریا کی OMV، آسٹریلیا کی BHP، برطانیہ کی پر یمئیر اور سب سے بڑھ کر ملائیشیا کی قومی تیل کمپنی پیٹروناس چاری گلی Petronas Carigaliپاکستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ چکی ہیں۔ اس تمام کمپنیوں نے گیس کے بڑے ذخائر دریافت کرلئے تھے لیکن غیر ضروری پابندیوں اور گنجلک قوانین سے پریشان ہوکر ان سب نے پاکستان کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا۔
رشوت مافیا کیلئے ملک میں تیل و گیس کے وسائل کی دریافت کے مقابلے میں باہر سے تیل اور LNGکی درآمدزیادہ منافع بخش ہے کہ اس میں کمیشن کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔ نواز شریف حکومت نے قطر سے LNGخریدنے کا معاہدہ کیا۔ LNG یا Liquefied natural gas  کشید کرنے کیلئے قدرتی گیس سے پانی، ہائیڈروکاربن کے بو جھل و کثیف ذرات(heavy Hydrocarbons)، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر دباو  ڈال کو اسے رقیق حالت میں تبدیل کردیا جاتاہے۔اس عمل کا بنیادی مقصد نقل و حمل میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ LNGکو ٹینکروں اور بحری جہازوں کے ذریعے پیداواری مقام سے دوردراز علاقوں یا بیرونی ممالک  کو بھیجا جاسکے۔ LNG بنانے کے عمل میں قدرتی گیس کا حجم 600 واں حصہ رہ جاتا ہے۔مقام مقصود پر پہنچنے کے بعد اسے دوبارہ  گیس کی شکل دیدی جاتی ہے تاکہ اس سیلینڈروں یا پائپ لائن کے ذریعے آگے تقسیم کیا جاسکے۔
اب کہا جارہا ہے کہ وفاقی وزیرجہاز رانی علی زیدی LNGکیلئے ExxonMobilسے گفت و شنید میں مصروف ہیں۔  تیل و گیس کی کمی سے نبٹنے کیلئے LNGکی درآمد وقتی طور پر تو ٹھیک ہے لیکن اسے توانائی کےباب میں ایک مستقل حکمت عملی کے طور پر اختیار کرلینا کسی طور مناسب نہیں۔
توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانا ملکی بقا کیلئے بے حد ضروری ہے۔ معاملہ صرف خریدرای کیلئے زرمبادلہ اور مالی وسائل کا نہیں بلکہ جنگ کی صورت میں تیل اورLNGسے لدے ٹینکروں کی بندرگاہوں پر حفاظت کوئی آسان کام نہیں۔ اگر دشمن ہمارے آبی راستوں یا بندرگاہوں کو چند روز کیلئے بھی مسدود کرنے میں کامیاب ہوجائے تو دفاع وطن کی صورتحال بے حد نازک ہوسکتی ہے۔ تیل و گیس میں خود کفالت کو مادر وطن کی سلامتی و قومی دفاع کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی ارضیاتی ساخت کے ساتھ ہمارا ملک ماہرانہ صلاحیت و استعداد کے معاملے میں خودکفیل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب حل و عقد تیل و گیس میں خودکفالت کو ترجیح اول بنائیں اور اس ہدف کو سامنے رکھ کر پالیسیاں وضع کی جائیں۔ اس میدان میں پیشقدمی کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ OGDC، پاکستان پیٹرولیم  (PPL)اور ماری پیٹرولیم جیسے ادارے  ملک سے باہر جاکر قسمت آزمائی کریں۔ دوہفتہ پہلے PPLنے عراق میں مدین نامی کنویں کی کھدائی کا آغاز کیا جو بے حد خوش آئند ہے۔ ان کوششوں کو  مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں تیل کے ذخائر بہت کم ہیں لیکن ہندوستانی تیل کمپنیاں امریکہ اور یورپ سمیت ساری دنیا میں سرگرم ہیں۔ دریائے خزریا Caspianکو ابھی حال میں اسکے ساحلوں پر رہنے والے ممالک نے قومی ملکیت میں لے لیا ہے۔ ترکمانستان،تاجکستان اور آذربائیجان کے ساتھ مل یہاں مشترکہ منصوبوں میں حصہ ڈالا جاسکتا ہے۔دوسرے ممالک میں پیداواری اثاثے بنانے سے قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوگا، ماہرین کو تجربے کے نئے واقع حاصل ہونگے اور بازار میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوگا جس سے ہماری سفارت کاری کو بھی تقویت حاصل ہوگی کہ اس دور میں تجارت و سرمایہ کاری موثرسفارتکاری کیلئے بہت ضروری ہے ۔
ملک میں وسائل، تجربہ کار افرادی قوت، ماہرانہ صلاحیت سب کچھ موجود ہے۔ مقتدرہ بھی توانائی میں خود کفالت کیلئے پرعزم نظر آرہی ہے لیکن اس ضمن میں حقیقت پسندانہ پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہدف کے حصول کیلئےحکومت و ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو تو انائی میں خود کٖفالت کا حصول بہت زیادہ مشکل نہیں۔
حوالہ: اس مضمون کی تیاری میں مرحوم اقبال قادری(I.B. Kadri) صاحب کی کتاب Petroleum Geology of Pakistanسے استفادے کے علاوہ  اعدادو شمار کی فراہمی کیلئے پاکستان پیٹرولیم انسٹیٹیوٹ (PPIS)کی رپورٹ سے مدد لی گئی ہے
ہفت روزہ فرئیڈے اسپیشل کراچی 26 اپریل 2019

No comments:

Post a Comment