انڈونیشیا کے انتخابات ۔ مولانا صاحب اپنی
کامیابی کیلئے پرامید
آج 17 اپریل کو
انڈونیشیا میں صدر، نائب صدر اور عوامی شوریٰ (قومی اسمبلی) کی 560 نشستوں کےلئے انتخابات
ہورہے ہیں۔ اسی کے ساتھ بلدیاتی اداروں کیلئے بھی ووٹ ڈالے جائینگے۔ 27کروڑ آبادی
اور 17ہزار چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل یہ
ملک بحر ہند اور بحرلکاہل کے درمیان جنوب
مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ معاشرتی و ثقافتی تنوع کے اعتبار سے انڈونیشیا کو ایک
ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہاں 300 قومیتں آباد ہیں اور 700 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح دنیا کے ہر
مذہب کے ماننے والے انڈونیشیا میں آباد
ہیں جبکہ مسلمانوں کا تناسب 87 فیصد
کے قریب ہے۔
آج کے انتخابات میں
رجسٹرد ووٹروں کی تعداد 19 کروڑ سے زیادہ ہے۔ دنیا کا تعصب ملاحظہ فرمائیں کہ سارے
عالم میں اس وقت ہندوستان کے حوالے سے
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا ڈھنڈورہ
پیٹا جارہا ہے لیکن دنیا کی اس دوسری بڑی جمہوریت میں انتخابات کا عالمی میڈیا پر
کوئی ذکر نہیں حالانکہ ہندوستان میں
انتخابات 7 مراحل میں ہونگے جبکہ انڈونیشیا
کے 19 کروڑ ووٹر ایک ہی دن اپنا حق رائے استعمال کرینگے۔ واضح رہے کہ امریکہ کی آبادی انڈونیشیا سے زیادہ ہے لیکن جوان آبادی کا تناسب
زیادہ ہونے کی وجہ سے ووٹروں کے اعتبار سے
انڈونیشیا کو امریکہ پر سبقت حاصل ہے۔
ایک وقت انڈونیشیا
پاکستان کا جگری دوست ہواکرتا تھا۔ 1965 میں جب
ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تو صدر احمد سوئیکارنو نے اسے انڈونیشیا
پر حملہ قراردیتے ہوئے اپنی فوج پاکستان کی حفاظت کیلئے پیش کردی۔ انڈونیشی بحریہ نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کو رسد فراہم کی۔ ایک دلچسپ بات یہ
کہ اسوقت انڈونیشیا اور ملائیشیا کے درمیان اللہ واسطے کا بیر تھا چنانچہ ملائی
وزیراعظم عبدالرحمان ٹنکو انڈونیشیا کی ضد میں ہندوستان کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔
ہندوستان کے وزیراعظم لال بہادر شاستری ننکو کہلاتے تھے چنانچہ ننکو کابھائی ٹنکو کا نعرہ پاکستان میں بہت
مقبول ہوا۔ خیر یہ بات تو برسبیل تذ کرہ نکل آئی۔ اب واپس آتے ہیں انڈونیشی
انتخابات کی طرف۔
صدر منتخب ہونے کیلئے
پورے ملک سے اکثریت کے ساتھ ملک کی کم
ازکم 18 ریاستوں میں سے ہر ایک سے کم ازکم 20 فیصد ووٹ لینا ضروری ہے۔ انڈونیشیا 34 ریاستو ں پر مشتمل
ہے۔
10 جماعتی حکمراں
اتحاد نے صدارت کیلئے پیپلز ڈیموکریٹک
پارٹی (PDI-P)کے جوکو ویدیدو (Joko Widodo) المعروف جوکوویا اور نائب صدر کیلئے مجلسِ علمائے انڈونیشیا کے علامہ
معروف امین کو نامزد کیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ سابق صدر سوئیکارنو
کی صاحبزادی میگاوتی سکارنوپتری ہیں۔ انکے مقابلے پر حزب اختلاف نے عظیم انڈونیشیا تحریک (Gerindra)کے پرابو سوبیانٹو Prabowo Subianto کو صدر اور نائب
صدر کیلئے جکارتہ کے سابق نائب گورنر ساندیاگو صلاح الدین اونو Sandiaga Salahuddin Unکو نامزد کیا ہے۔جناب سوبیانتو سابق فوجی جرنیل اور کروڑ پتی کاروباری ہیں۔
گزشتہ بار بھی جرنل سوبیانتو اور صدر جوکویا کا مقابلہ ہوا
تھا جس میں 53 فیصد ووٹ لے کرصدر صاحب کامیاب ہوگئے۔ اس بار حکمران اتحاد نے نائب
صدارت کیلئے ایک عالم دین کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ مولانا امین کئی دہائیوں سے انڈونیشی سیا ست میں سرگرم ہیں ۔ وہ نہضۃ
العلما کے امیر تھے لیکن انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے انھوں نےامارت سے استعفےٰ دیدیا۔ علامہ امین انڈونیشیا کی
جامعہ ابن خلدون سے فارغ التحصیل ہیں جہاں سے انھوں نے اسلامی فلسفے کی تعلیم حاصل
کی۔ وہ اسی جامعہ میں درس و تدریس کے فرایض بھی سرانجام دیتے ہیں۔ علامہ صاحب
تحریکی فکر کے ساتھ تبلیغی جماعت سے بھی وابستہ رہے اور اب بھی گشت و تعلیم میں
باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں
کے مطابق مقابلہ بہت سخت ہے لیکن صدر جوکویا کو برتری حاصل ہے۔ علامہ امین کی وجہ سے مذہبی طبقے میں خاصہ جوش وخروش
پایا جاتا ہے۔ تیسری دنیا میں ووٹ ڈالتے
ہوئے عوام کی ہمدردیاں حزب اختلاف کے ساتھ ہوتی ہیں اسلئے کچھ پنڈتوں کا خیال ہے
صدر جوکویا اور علامہ امین کوشکست کا سامنا کرنا پڑیگا۔
No comments:
Post a Comment