Saturday, April 27, 2019

ایک ہی دن مسلمان اور یہودی دونوں نشانہ


ایک ہی دن مسلمان  اور  یہودی دونوں نشانہ
 آج صبح سویرے کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے مضافاتی علاقے سنی ویل (Sunnyvale)میں ایک نسل پرست نے  مسلمان سمجھ کر  راہگیروں پر  اپنی کار چڑھادی  جسکے بعد شام کو  جنوبی کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو کے مضافاتی علاقے پووے  (Poway)کے  ایک  یہودی عبادت خانے (Synagogue)میں اندھا دھند فائرنگ سے 1 شخص ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔
آجکل دنیا بھر کے یہودی  فرعون سے بنی اسرائیل کی آزادی کا تہوار منارہے ہیں  جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو مصر سےلے کر نکلے اور اللہ نے تعقب میں آتے فرعون اور اسکے سارے لاو لشکر کو بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے سمندر میں غرق کردیا۔ یہ تہوار عبرانی کیلنڈر کے پہلے مہینے یعنی نشان  (Nisan)کی 15 سے 22 تاریخ  تک منایا جاتا ہے جو اس  سال اپریل کی  19 اپریل کو غروب آفتاب سے  27 اپریل  کی رات شفق کے غائب ہونے تک جاری رہا۔اس تہوار کو عبرانی میں پیشاک (Pesach) جبکہ انگریزی میں Passoverکہتے ہیں۔
پولیس کے مطابق ہفتے کی صبح جب یہودی عبادت گزار پووے  کے کنیسہ یا Synagogueمیں پیشاک کی الوداعی عبادت کررہے تھے ایک 19 سالہ لڑکا وہاں آیا اور اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ ایک ساٹھ سالہ خاتون گولیاں لگنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگئی جبکہ 57 سالہ  ربائی (امام ) اسرائیل گولڈاسٹائن اور ایک چھوٹی بچی سمیت  3 افراد زخمی ہوگئے۔
فائرنگ کے بعد ملزم وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا لیکن تھوڑی دور جاکر اس نے پولیس کے ایمرجنسی نمبر پر فون کرکے بتایا کہ اسکا نام John Earnest ہے جس نے یہودی کنیسہ پر فائرنگ کی ہے۔ جب پولیس اس مقام پر پہنچی تو ملزم ہاتھ بلند (hands up)کرکے گاڑی سے باہر آیا اور بلامزاحمت گرفتاری دیدی۔
پولیس نے اب تک اس حملے کے محرکات کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا لیکن مقامی انتظامیہ کے خیال میں یہ منافرت پھیلانے والا جرم یا Hate Crimeہے۔ گزشتہ ماہ پووے کے قریب  اسکونڈیدو  Escondidoمیں جامع  مسجددارِ ارقم  کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور حملہ آوروں نے  جاتے جاتےمسجد کی بیرونی دیوار پر 'نیوزی لینڈ کا تسلسل' لکھ دیا تھا۔ پولیس آج یہودی عبادتگاہ میں فائرنگ اور مسجد ارقم میں آتش زدگی کے درمیان  تعلق کے امکانات کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔
امریکہ میں مساجد اور یہودی عبادتگاہوں پر حملے بہت عام ہوگئے ہیں ۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صدر ٹرمپ کے  تارکینِ وطن اور مذہبی اقلیتوں خاص طور سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانئے کا شاخسانہ ہے۔ معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ  فرانس کی میرین لاپن، ہالینڈ کے  گیرت وائلڈرز اور ہنگری کے وزیراعظم  وکٹر آربن وغیرہ  ساری مغربی دنیا میں غیر مسیحی اقلیتوں کے خلاف نفرت کی تحریک شروع کررکھی ہے جسکی وجہ سے مجرم پیشہ نسل پرست امن عامہ کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔


No comments:

Post a Comment