احترامِ نسوانیت
یورپ
اور امریکہ میں خواتین کو مکمل آزادی حاصل ہے اوراختلاطِ مردوزن کی وجہ سے اس کھلے
ڈلے معاشرے میں مروکا کسی عورت سے مصافحہ، معانقہ حتیٰ کہ اس پری پیکر کے لب و رخسار چوم لینا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی لیکن اب خواتین اس
معاملے میں بہت حساس ہوگئی ہیں اور
'غیرمطلوبہ ' یا Unwanted پیش دستی پر بہت سے بیباک
مردوں کو ڈانٹ پھٹکار سے آگے بڑھ کر محکمہ
جاتی کاروائی کا سامنا ہے۔ کئی سیاسی رہنماوں کو اپنے عہدے سے استعفیٰ
دینا پڑا ہے۔ خواتین کی #metooتحریک نے ایسے لوگوں کا تعقب شروع کردیا ہے جو خوش
اخلاقی کی آڑ میں اپنی
ٹھرک کی تسکین
کرتے ہیں۔
تازہ ترین مثال امریکہ کے سابق نائب صدر جو بائیڈن کی ہے جو خواتین سے ملتے وقت غیر معمولی گرمجوشی کا اظہار کرتے
ہیں۔مصافحے کے دوران وہ نسوانی ہاتھ بہت
دیر تک تھامے رہتے ہیں ، پرجوش معانقہ کرتے ہیں اور گال چوم کر بہت فراخدلی
سے حسن کی تعریف کرتے ہیں۔
جوبائیڈن نے اب تک اعلان نہیں کیا لیکن وہ آئندہ صدراتی انتخابات کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے خواہشمند ہیں ۔
گزشتہ دنوں انکی ایک پرانی تصویر سامنے آئی
جب 2015 میں انھوں نے سابق
وزیردفاع ایش کارٹر سے حلف لیا اور حلف کے
بعد جب وزیرباتدبیر تقریر کررہے تھے تو بائیڈن
صاحب نے وزیر کی اہلیہ محترمہ اسٹیفنی
کارٹر کو اپنے مخصوص انداز میں مبارکباد دی۔ اخبارات میں اسی نوعیت کی چند دوسری تصاویر بھی شائع ہوئیں جس میں جو بائیڈن خواتین
سے بے تکلفی کا مظاہر ہ کرررہے ہیں۔#Metooتحریک اور خواتین کی انجمنوں کا خیال ہے کہ اکثر تصاویر میں سابق نائب صدر جس بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے
ہیں وہ غیر مطلوبہ پیش دستی بلکہ دست درازی شمار ہوتی ہے۔
جو بائیڈن کا کہنا ہے
کہ مصافحہ و معانقہ کرتے وقت انکی نیت
بالکل 'پاک' تھی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس کی اسپیکر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی
رہنما محترمہ نینسی پلوسی سے کہا کہ تاثر نیت پر نہیں بلکہ مشاہدے پرقائم ہوتے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی
خواتین رہنماوں کا کہنا ہے کہ ان تصویروں میں جناب
جوزف بائڈن بلاوجہ 'فری ' ہوتے نظر آرہے ہیں جو خواتین کو ہراساں کرنے کی ایک کوشش ہے اور ایسے ٹھرکی کو ملک کا
صدر نہیں بنایا جاسکتا۔
No comments:
Post a Comment