یہ منہہ اور مسور کی دال
کابل کے ڈاکٹر صاحبان یعنی اشرف غنی اور
عبدااللہ عبداللہ خود کو افغان عوام کا نمائندہ سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں
اور روز نت نئے دعوے داغتے رہتے ہیں حالانکہ ایوان صدر کے پہرے پر بھی نیٹو افواج
تعینات ہیں کہ کیا خبر کوئی مقامی افغا ن
گارڈ کس وقت طالبان کی فکر سے متاثر ہوکر اپنی بندوق کا رخ انکی طرف نہ کرلے۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ آجکل اردن میں ہیں
جہاں 6 اور 7 اپریل کو بحر مردار کے ساحلی شہر میں
عالمی اقتصادی فورم (WEF)کا
اجلاس منعقد ہوا ہوا۔ڈاکٹر صاحب مغربی
رہنماوں کی جانب سے مدد کی یقین دہانیوں پر خوشی سے نہال بلکہ کچھ بہکے بہکے سے ہیں۔ آج صبح
اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے بقراطی فرمائی کہ
' جس لمحے طالبان نےتشدد چھوڑا اور دہشت گردوں سے ناطہ توڑا وہ افغان سیاست میں بھرپور حصہ لے
سکتے ہیں۔ اگر عوام انھیں ووٹ دیں تو
طالبان ہر فورم پر افغان عوام کی نمائندگی کرسکتے ہیں'۔ ساتھ ہی فرمایا 'طالبان کو
ڈر ہے کہ عوام انکو ووٹ نہیں دینگے اسلئے
کہ افغان عوام امن تو چاہتے ہیں لیکن انھیں
طالبانائزیشن کسی صورت قبول نہیں'
پریس کانفرنس کے
دوران ڈاکٹر صاحب خود کو پراعتماد ظاہر
کرنے کیلئےگھوم گھوم کر اور جھوم جھوم کر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے اور انکی
بڑھکیں سن کر صحافی زیرلب مسکراتے رہے کہ ڈاکٹر صاحبان کی تو حیثیت ہی کیا
ہے۔امریکی فوجی بھی بگرام کے ہوائی اڈے سے اپنے اڈے پر جانیکے کیلئے ہیلی کاپٹر
استعمال کرتی ہے حالانکہ یہ فاصلہ 2 کلو میٹر سے بھی کم ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک قافلے
نے پہلی بار بگرام سے اڈے تک زمینی سفر کی
کوشش کی اورطالبان کے نصب کئے گئے بم سے
ٹکرا کر کئی گاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی جس میں 3 سپاہی اور ایک کنٹریکٹر ہلاک ہوگئے
جبکہ 3 فوجی شدید زخمی ہیں۔
No comments:
Post a Comment