پرانی تحریر:عمران صاحب کی طرح پیپلزپارٹی نے بھی اپنے دور میں
وزرا کے قلمدان تبدیل کئے تھے۔2012میں ایسی ہی ایک تبدیلی پر ہمارا ایک مضمون جو امت
میں شائع ہوا۔ اس میں جناب عمران خان کا بھی ذکر تھا۔ تحریر ذرا لمبی ہے لیکن شائد
احباب کوپسند آئے
وزرا کے قلمدان کی تبدیلی
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے
دو وزیروں کے قلمدان تبدیل کردئے ہیں۔ وزیر پانی و بجلی سید نوید قمر کو وزیر دفاع
بنا دیا گیا ہے جبکہ وزیر دفاع جناب احمد مختار کو وزارت پانی و بجلی کا قلمدان
سونپ دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت جناب نوید قمر کی کارکردگی سے مطمعن نہیں تھی
اور وزیراعظم کے خیال میں وہ بجلی کا بحران ختم کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ یہ بات
بے حد خوش آئند ہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی کابینہ پر نظر رکھتے ہیں اور وزرا اپنی کارکردگی
کے سلسلے میں وزیراعظم کو جوابدہ ہیں۔ تمام مہذب جمہوریتوں میں وزیراعظم اور
کابینہ کے احتساب کا نظام قائم ہے۔ برسر اقتدار پارٹی کی پارلیمانی قیادت باہمی
مشورے سے اپنی ٹیم کے لئے اھداف کا تعین کرتی ہے اور ان کا برابر جائزہ لیا جاتا
ہے۔اہداف کی روشنی میں وزرا اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی وزیر متواتر تین
بار ہدف کے حصول میں ناکام رہے تو اسکا استعفیٰ طلب کرلیا جاتاہے۔ معلوم ہوتا ہے
کہ پیپلز پارٹی میں بھی وزرا کی کارکردگی کو جانچنے کا ایک مربوط نظام قائم ہے۔ تاہم
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ نااہلی ثابت ہونے
کے بعد محض قلمدان تبدیل کردینے سے کیا بہتری آئیگی اور ایک شعبے میں ناکام رہنے
کے بعد کسی دوسری وزارت میں کامیابی کی توقع کس بنیاد پر کی جارہی ہے۔ جناب سید نوید
قمر حیدرآباد کے ایک باعزت سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی شرافت، سنجیدگی
اور بردباری کی بنا پر انھیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ شاہ صاحب اعلیٰ تعلیمیافتہ ہیں
اور ان پر کرپشن یا اقربا پروری کا کوئی الزام نہیں تاہم وزیر پٹرولیم و قدرتی
وسائل کی حیثیت سے انکی کارکردگی قابل رشک نہ تھی۔ گیس کے حالیہ بحران سے شاہ صاحب
کی فراست کا اندازہ ہوتا ہےلیکن اس ناکامی پر شاہ صاحب سے پٹرولیم کی وزارت واپس لے
کر انھیں وزیر بجلی و پانی بنادیا گیا اور اب انھیں وزیر دفاع لگادیا گیا ہے۔وزارت
پٹرولیم سنبھالنے سے پہلے موصوف نجکاری کے وزیر تھے۔ ایک ہی فرد کو کابینہ کے مختلف
کلیدی قلمدان سونپنا کوئی اچھی بات نہیں۔ اس سے تو لگتا ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم میں
تنوع ہے اور نہ ہی انھیں باصلاحیت افراد کی رفاقت میسر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انکے
پاس گنتی کے چند لوگ ہیں جنھیں مختلف جگہوں پر آزمایا جارہا ہے اور ان تبدیلیوں سے
اپنے رفقا پر وزیراعظم کے عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ وزارت بجلی و پانی تو خاص طور سے تختہ مشق بنی
ہوئی ہے۔ پہلے جناب راجہ پرویز اشرف نے قسمت آزمائی کی۔ راجہ صاحب کی ناکامی پر یہ
قلمدان سید نوید قمر کو تھمادیا گیا اور اب شاہ صاحب سے اس شعبہ کا پروانہ وزرات
واپس لیکر چودھری احمد مختار کو اسکا ذمہ دار بنا دیا گیا ہےجنکی وزیر دفاع کی
حیثیت سے کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی۔
دہشت گردوں نے کراچی میں مہران بیس
پر حملہ کرکے دو قیمتی جہازوں کو نذر آتش کردیا اور اڈے میں داخل ہونے والا ایک
بھی دہشت گرد گرفتار نہ ہوسکا بلکہ دہشت گردوں کی اصل تعداد کا ہی پتہ نہ چل سکا۔
ملک کی فضائی حدود امریکی ڈرونز کے ہاتھوں ہر روز پامال ہورہی ہے اور چودھری احمد
مختار صاحب اپنے ہموطنوں کے دفاع سے یکسر معذور ہیں۔وزیر اعظم گیلانی کے اکثر رفقا
کی کارکردگی مایوس کن اور بعض کا تو کردار بھی مشکوک ہے۔ وزیر داخلہ جناب رحمان
ملک کے بارے میں خود انکی پارٹی کے سینٗر رہنماوں نے کھل کر شک کا اظہار کیا ہے۔
سندھ کے سابق وزیرداخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے اپنے سر پر قرآن رکھ کر انھیں عادی
جھوٹا اور دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیا تو پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنما سینیٹر
لشکر رئیسانی بھی ملک صاحب کو دہشتگردوں کا پشت پناہ قرار دیتے ہیں۔ اب تو خیر سے دہری
شہریت کی بنا پرسپریم کورٹ نے سینیٹ سے ملک صاحب کی رکنیت ہی معطل کردی ہے۔ اخباری
اطلاعات کے مطابق ملک صاحب نے برطانوی شہریت واپس کردینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن معاملہ
صرف دہری شہریت کا نہیں بلکہ دھوکہ دہی اور حقائق چھپانے کا ہے۔ چیف جسٹس جناب
محمد افتخار چودھری صاحب کے مطابق آئینِ پاکستان کے تحت دہری شہریت کا حامل کوئی فرد
پارلیمان کا رکن نہیں ہوسکتا۔جس وقت رحمان ملک صاحب نے سینیٹ کی نشست پر کاغذات
نامزدگی داخل کئے اسوقت وہ برطانوی شہری تھے اور اس اعتبار سے وفاقی وزیر داخلہ
قانون شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ شنید ہے کہ
جناب رحمان ملک کو وزیراعظم کا مشیر داخلہ بنادیا جائیگا جنکا درجہ وفاقی
وزیر کے برابر ہوگا۔ گویا سپریم کورٹ کا فیصلہ نافذ نہیں ہوسکے گا۔ اس سے پہلے اسی
حکومت کے سابق وزیر قانون جناب بابر اعوان کی وکالت کا لائیسنس سپریم کورٹ معطل
کرچکی ہے جبکہ وزیر اوقاف خرد برد اور بد عنوانی کے الزام میں نظر بند ہیں۔ اور تو
اور خودوزیراعظم صاحب سپریم کورٹ سے سزا یافتہ ہیں اور فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرکے
اسے تسلیم بھی کرچکے ہیں۔ ناکام وزیروں کی
برطرفی کے بجائے انکے قلمدانوں کی تبدیلی سے
عوام میں حکمراں جماعت اور صدر زرداری کا تاثر خراب تر ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی کا
بحران عوام کے لئے ایک عذاب بن چکا ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کی
ضرورت ہے۔ محض چہروں کی تبدیلی سے وزیراعظم کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔سچ تو یہ
ہےاس معاملے پر پنجاب حکومت کا رویہ بھی مناسب نہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران
صوبائی حکومت نے بجلی گھر تعمیر کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا نہ ہی چھوٹے ڈیم
بنانے کی کوئی سبیل کی گئی۔اب تو وزیراعلیٰ صاحب خود بھی مظاہروں میں شریک ہورہے
ہیں۔ گزشتہ دنوں ساہیوال میں ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جناب شہباز
شریف جوش جذبات میں یہ تک کہہ گئے کہ عوام کو جمہوریت نہیں بجلی کی ضرورت ہے۔ یہ
ایک انتہائی نامناسب بات تھی جسکی بہت برے انذاز میں تشریح کی جاسکتی ہے ملک جس
شدید بحران میں مبتلا ہے اس سے نمٹنے میں پیپلز پارٹی سنجیدہ نظر نہیں آتی تو
دوسری طرف غیر ذمہ دارانہ بیانات اور طرز عمل سے لگتا ہے کہ حزب اختلاف کے پاس بھی
اس سلسلے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود نہیں۔ جناب عمران خان بلند وبانگ دعووں
میں مصروف ہیں لیکن انتخابات میں کامیابی پر مشرف ٹیم کے آزمائے ہوئے لوگوں اور
چلے ہوئے کارتوسوں کے ساتھ انکے لئے بھی
کرپٹ بدعنوان اور نااہل بیوروکریسی
کو نکیل ڈالنا مشکل ہوگاس۔ جناب سید منور حسن کی اس بات میں خاصا وزن محسوس
ہوتا ہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لئےمحب وطن عناصرکاایک متحدہ محاذ بنانے کی ضرورت ہے۔
روزنامہ امت کراچی ۷ جون
۲۰۱۲
No comments:
Post a Comment