Saturday, April 6, 2019

سارے دشمن خوفزدہ ہیں ایک نہتی لڑکی سے


سارے دشمن خوفزدہ ہیں ایک نہتی لڑکی سے
دھان پان سی صومالی نژاد لڑکی  الحان عمر جب سے امریکی کانگریس کی رکن منتخب  ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ سمیت امریکہ کے نسل پرستوں نے  اسکی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
اسکے خلاف  طوفان بدتمیزی کا آغاز اسوقت ہوا جب  الحان نے پہلی بار منتخب ہونے والے ارکان کانگریس کیلئے اسرائیل کے مطالعاتی دورے کی مخالفت کی۔ اس نے سوال کیا کہ  اسرائیل کا انتخاب  کس لئے کیا گیا ہے؟ اگر اسکا مقصد  مشرق وسطیٰ کے حالات کا ذاتی مشاہدہ ہے تو پھر اس وفد کو غزہ اور غربِ  اردن کے مغربی کنارے بھی  جانا چاہئے۔
اسکے بعداس منہہ پھٹ لڑکی نے کہہ دیا کہ کانگریس کے بعض ارکان جس انداز میں اسرائیل کی حمائت کرتے ہیں اس سے تو لگتا کہ ان لوگوں کو امریکہ  سے زیادہ  غیر ملکی مفاد عزیز ہے۔ اس بیان پر ایسا بھونچال آیا کہ بات اسکی  رکنیت منسوخ ہونے تک جا  پہنچی لیکن  کانگریس کا سیاہ فام، انڈین  اور لبرل  طبقہ خم ٹھونک کر الحان کی حمائت میں سامنے آیا تو امریکی تاریخ میں پہلی بار  مسلم دشمن تعصب   اور یہودی دشمن  (Anti-Semetic)  نفرت کی ایک ساتھ مذمت کی گئی
صدر ٹرمپ اپنے جلسوں میں الحان کا مذاق اڑاتے پھر رہے ہیں اور وہ صومالی نژاد رکن کانگریس کو امریکی اقدار کی دشمن قراردینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسی نفرت کا نتیجہ ہے کہ اب نسل پرستوں نے اسے قتل کی دھمکی دینی شروع کی ہے۔
دودن پہلے ایک شخص نے الحان کے دفتر فون کیا اور اس سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جب سے اسے بتایا گیا کہ اس وقت الحان دفتر میں موجود نہیں تو اس نے  Receptionistکو عار دلاتے ہوئے کہا کہ 'تمہیں ایک امریکہ دشمن مسلمان  کے دفتر میں کام کرتے شرم نہیں آتی؟' اسی کے ساتھ اس نے الحان کو قتل کی دھمکی دی۔
کل (جمعہ) کو ریاست نیویارک کے شہر ایڈیسن سے پولیس نے  55 سالہ سفید فام پیٹرک کارلینیو Patrick Carlineoکو گرفتار کیا ہےجس نے دھمکی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کا پرجوش حامی ہے اور اسکوامریکی حکومت میں شامل کٹرمسلمانوں سے نفرت ہے۔ اسکا خیال  ہے کہ الحان عمر اخوان المسلمون سے وابستہ ہے اور اس نے فون پر الحان کے قتل کی دھمکی دی تھی۔ پولیس کے مطابق پیٹرک کے گھر پر پستول اور دوسرا آتشیں اسلحہ بھی موجود ہے۔
 صدر ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے امریکہ میں عدم برداشت اور انتہاپسندی بے حد بڑھ گئی   ہے اور اب لفظی ناشائستگی ممکنہ خونریزی تک پہنچتی نظر آرہی ہے۔



No comments:

Post a Comment