رقہ زمیں بوس ہوگیا لیکن اتحادی سچائی کو دفن کرنے میں ناکام رہے۔
کہتے ہیں
کہ جنگ کی سب سے پہلی شہید سچائی ہوتی ہے لیکن خون کا چھپناممکن
نہیں۔ ہماری پوسٹ کے آغاز پر جو جملہ درج ہے وہ ایمنسٹی کی تحقیقات کار محترمہ
ڈوناٹیلا رویرا Donatella Roveraکے الفاظ ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شام کے شمال مشرقی شہر رقہ (Raqqa)میں مبینہ جنگی جرائم کی تحقیات کیلئے ایک کمیشن قائم کیا تھا جس نے آج اپنی
رپورٹ جاری کردی۔
اس سر سبزو شاداب بلکہ باغات کے شہر
کو عباسی خلیفہ ہارون الرشیدنے اپنی سلطنت کا
دارالخلافہ بنایا تھا۔طبقہ ڈیم کی تعمیر کے بعد یہ شہر اور بھی گل وگلزار ہوگیا
تھا۔
شام میں خانہ جنگی کے آغاز پر
رقہ شدید بدامنی کاشکار ہوااور 2012 میں اس پر امریکہ اور خلیجی نواز جنگووں نے قبضہ کرلیا۔ یہ وہ وقت تھا
جب عراق اور شام میں داعش کا جادو سر چڑھ
بول رہا تھا چنانچہ کچھ عرصے بعد اس پر داعش نے قبضہ کرلیا یا یوں کہئے کہ شامی
فوج، ایرانی پاسداران ، روس، خلیجی ممالک
اور نیٹو اتحادیوں نے اسے داعش کے حوالے کردیا۔ 5 سال تک داعش دہشت گردوں کو رقہ کے شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی کھلی
اجازت رہی۔
2017 میں صدر ٹرمپ نے اپنے فوجیوں کو رقہ
پر قبضے کا حکم دیا، بس پھر کیا تھا۔ سارا شہر کارپٹ بمباری کا ہدف بن گیا اور چند
ہی دنوں میں یہ شہر ملبےکا ڈھیر اورپر
اسرار داعش کافور ہوگئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شہریوں
کے جانی نقصان کی شکائت پر امریکی فوج نے کہا کہ اتحاد ی فوجیں انتہائی احتیاط کے
ساتھ چن چن کر داعش کو نشانہ بنا رہی ہیں اور شہری نقصان نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکیوں کے اس دعوے کو
دنیا نے تسلیم نہیں کیا۔
چند ماہ پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اسکے
جنگی جرائم کی تحقیق کرنے والے سیل Airwarsنے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے ان الزامات کی
غیرجانبدارانہ اور شفاف چھان بین کی۔
مہینوں کی تحقیقات کے
دوران متاثرین سے ملاقاتیں کی گئی۔ سیٹیلائٹ سے حاصل کی گئی سینکڑوں تصاویر (Satellite Images) کا
تفصیلی مشاہدہ کیا گیا۔ کئی تباہ حال عمارتوں کے ملبے اور باقیات کا عرق ریزی کے ساتھ
کیمیکل تجزیہ بھی ہوا جسکے بعد آج یہ رپورٹ جاری کردی گئی۔
کمیشن کی سربراہ محترمہ رویرا نے کہا کہ نیٹو حملوں میں کم ازکم
1600عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر
ہلاکتیں بمباری اور ٹینکوں کے گولوں کا نتیجہ ہیں۔ رویرا کا کہنا ہے کہ اتحادی
طیاروں نے شہری عمارات کو براہ راست نشانہ بنایا اور زمین سے زمین پر مارے جانیوالے
میزائلوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس قتل
عام میں شامی، خلیجی، ایرانی، روسی اور نیٹو سب برابر کے حصے دار یعنی خون ِ ناحق چھپانے
کیلئے اپنے ہاتھوں پردستانے چڑھانے کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔
No comments:
Post a Comment