Friday, April 5, 2019

اور اب مایوسی کا طوفان ۔۔۔


اور اب مایوسی کا طوفان ۔۔۔  
ہم  پاکستانی   ایسی جذباتی قوم  ہیں  کہ  ہماری سوچ اور امید  ہمیشہ انتہاوں  پرہوتی ہے۔ سمندر میں  تیل کی تلاش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی  دکھائی دے رہاہے۔  کھدائی  کے آغازسے  کافی پہلے نگراں  حکومت  کے وزیر جناب حسین  ہارون   دعویٰ کرگئے کہ سمندر میں تیل و گیس کا ایک بہت ذخیرہ  دریافت ہوچکا ہے جو اپنے حجم کے اعتبار سے کوئت  سے بھی بڑاہے۔ حسین ہارون صاحب  کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انھوں نے وضاحت فرمادی۔
ابھی کچھ دن پہلے عمران خان نے   کہا کہ ' چند ہفتوں میں قوم کو ایک بہت بڑی کوشخبری ملنے والی ہے' جسکے دودن بعد  وزیرپٹرولیم غلام سرور خان نے بہت اعتماد سے فرمایا کہ  تیل و گیس کا اتنا بڑا ذخیرہ دریافت ہورہا ہے جو ہماری ڈیڑھ سو سالہ ضرورت کیلئے کافی ہوگا۔ غالباً اسے بنیاد بناکر مشہور تجزیہ نگار  ڈاکٹرشاہد مسعود نے پریشر ککس  (Pressure Kicks)، کیچڑ (Mud)اور دوسری تیکنیکی اصطلاحات سے مزین  گفتگو میں یہ ثابت کردیا کہ گیس کا بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوگیا ہے۔ جسکے بعد عمران خان کے حوالے سے دریافت کی خبر شایع ہوئی۔
عمران خان کے اس دعوے کے بعد وائس آف امریکہ پر گفتگو کرتے ہوئے او جی ڈی سی کے سابق سربراہ  ڈاکٹر گلفراز احمد  نے کہا   کہ وزیراعظم  نے دریافت کے بارے میں اتنی اہم بات  وزارت  پیٹرولیم  کے ذمہ داروں سے مشورے کے بعدہی  کہی ہوگی۔ ڈاکٹر گلفراز نے بھی  پریشر ککس کو  تیل و گیس کی موجودگی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔گزشتہ ماہ ہم نے احباب  کی وضاحت  کیلئے  فیس بک پر ایک تفصیلی پوسٹ  لکھی تھی   جس میں  عام فہم انداز میں تلاش   کے کا م کا سمجھانے کی شش کی گئی ہے۔
اسی کے ساتھ سوشل میٖڈیا پر ایک غیرمنطقی اور کسی حد تک ناشائستہ بحث کا اغاز ہوگیا، ممدوحینِ عمران کا خیال ہے  'مستند ہے انکا فرمایا ہوا' جبکہ مخالفین  نے اسے کپتان کی روائتی بھڑک سے تعبیر کیا۔
 ادھر چنددنوں سے  منفی ومایوس  کن خبروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اسکا آغاز جنگ کے نمائندے خالد مصطفیٰ صاحب کی ایک رپورٹ سے ہوا جس میں انھوں نے وزارت پیٹرولیم  اور اوجی ڈی سی  کے ریٹائرڈ ماہرین کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ تیل و گیس کے ذخائر ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق  DGPCجناب  قاضی سلیم نے اسے  ڈوبی ہوئی سرمایہ کاری یا Sunk Investmentکہا۔ میں قاضی صاحب کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔ وہ ایک بہت ہی قابل و تجربہ کار افسر ہیں ۔ انھوں نے یقیناً ڈوبتی سرمایہ کاری کا تذکرہ  کسی اور پہلو ے کیا ہوگا جسے خالد مصطفیٰ صاحب  نےمایوسی کا عنوان سمجھ لیا۔ جنگ کی رپورٹ میں باربار ٹریکنگ (Tracking)کا ذکر ہے جسے ناکامی کی علامت کی طور پر پیش کیا جارہاہے۔
گزشتہ نشست میں ہم نے پریشر کک (Pressure Kick) کی وضاحت کی تھی کہ یہ دریافت کی علامت نہیں۔ آج Sunk Investment اور 'ٹریکنگ' پر چند سطور۔
جہاں  تک کیکڑا کنویں  کے 12 فیصد کامیابی کاامکان ہے تو دنیا بھر میں کھودے جانیوالے ہر 10 کنویں میں سے اوسطاً صرف ایک کنویں سے  تیل اور گیس کی منافع بخش   مقدار برآمد ہوتی ہے، گویا دنیا بھر میں کامیابی کا اوسط 10 فیصد ہے۔ اس اعتبار سے  کامیابی کا  12 فیصد امکان  مایوس کن  نہیں بلکہ پر کشش ہے۔احباب کو کامیابی کا 12 فیصد امکان یقیناً مایوس کن لگ رہا ہوگا کہ لیکن  یہاں کامیابی کی صورت میں منافع بھی چھپرپھاڑ ہوتا ہے ۔ یہ تجارتی دنیا کا بڑا عا م سا مشاہدہ ہے کہ جہاں بے پناہ منافع متوقع ہو وہاں سرمایہ کار بھاری سے بھاری خطرہ مول  لینےکو تیار ہوجاتا ہے۔کیکڑا 1 اس اعتبار سے ڈوبی ہوئی سرمایہ کاری ہے۔
 اب آتے ہیں  ٹریکنگ کی طرف۔ ہمارے ماہرین کی ٹریکنگ کی مراد Side Trackہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے    جب   کنویں کی کھدائی میں  کوئی ناقابل اصلاح رکاوٹ  حائل ہوجائے تو اسکے  کھلے حصے کو کنکریٹ سے بھر کر  اسکے برابر سے کھدائی شروع کردی جاتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو اسے ٹیڑھا کرنا پڑتاہے۔ انگلی ٹیڑھی کرکے کھدائی جاری رکھنے کے عمل کو  Side Tracking یا STکہتے ہیں۔  STکی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
جیسا کہ ہم نے اپنی گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ چار پانچ ہزارمیٹر مٹی سے دبی چٹانوں میں مائعات  (تیل ، پانی یا گیس)  پھنسے ہوتے ہیں اور جب  کھدائی کے دوران اوپر کی پرت ادھڑتی ہے تو یہ مائع پوری قوت سے کنویں کے راستے اوپر کی طرف اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دباو کا مقابلہ کرنے کیلئے پانی میں مختلف کیمیکل ملا کر نیچے پمپ کیا جاتا ہے جسے کیچڑ یا Mudکہتے ہیں۔کیکڑا1 میں   جب بڑھتے ہوئے Formationپریشر کو قابو کرنے کیلئے کیچڑ کا وزن بڑھایا گیا تو اوپر کے  حصے کی  چٹانیں  کیچڑ کے وزن  سے ٹوٹ گئیں  اورپمپ کیا  جانیوالا کیچڑ بوسیدہ چٹانوں کے اندر سرائت کرگیا جسکی وجہ سے کیچڑ کا بہاو رک گیا۔اس صورتحال کو   Loss of Ciculationکہتے ہیں۔ بہاو میں خلل آنے سے Hydrostatic Pressureکم ہوااور نتیجے کے طور پر کنویں  کے نچلے حصے کی چٹانوں میں  پھنسے مائع جات  نے Kick لگانی شروع کردی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ اگر Kickکو قابوکرنے کیلئے کیچڑ کا وزن بڑھایا جائے تواوپری حصے کی  چٹانیں کیچڑ نوشی  شروع کردیتی ہیں  اوراگرکمزور چٹانوں کی دلجوئی کیلئے  وزن کم کیا جاتا تو نیچے کی چٹانیں بولنا شروع کردیتیں۔ اسی بنا پر یہ طئے کیا گیا کہ اس پورے حصے کو کنکریٹ سے بند کرکے اسے Sidetackکیا جائے اور کم پریشر والی چٹانوں کونسبتاً ہلکے کیچڑ کے ساتھ کھودکر اسے Casing کے پیچھے محفوظ کرنے کے بعد زیادہ  پریشر والی چٹانوں کو بھاری  کیچڑکے ساتھ کھودا جائے  تاکہ ان چٹانوں میں پھنسا مائع اوپر کی طرف حرکت نہ کرسکے۔
ان گزارشات کا مقصد احباب کو یہ بتانا ہے کہ تیل و گیس کیلئے کنووں  کی کھدائی عملاً جوئے شیر لانے   سے زیادہ مشکل ہے لیکن یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں والی بات ہے اور اس صنعت سے وابستہ لوگو  ں کیلئے  kicks، چٹانوں کی کیچڑ نوشی، پائپ کا کنویں میں پھنس کر ٹوٹ جانا،بھربھری چٹانوں کا سامنا کوئی نئی بات نہیں۔اگر کنویں کی سرکشی حد سے بڑھ جائے تو جیسے بہتا دریا راستے میں آنے والی رکاوٹ سے سرپھوڑنے کے بجائے اسکے دائیں یا بائیں سے راستہ نکال لیتا ہے اسی طرح یہاں بھی کنکریٹ ڈال کر کنویں کا راستہ تھوڑا سا تبدیل کرلیاجاتا ہے۔
تو صاحبو! نہ تو Kicksسےامیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ Sidetrackسے مایوسی۔یہ سب ڈرلنگ کے راستے کی مشکلات ہیں  جن پر قابوپالینا کوئی ایسا بڑا کام  نہیں۔ اگر یہ پریشانیاں نہ آئیں تو ویدرفور، شلمبرژے، بیکر اور ہیلی برٹن  والوں کے گھر کے چولہے کیسے جلیں۔  
جب تک برما (bit)سخت چٹان (Cap Rock) کو چیر کر تیل و گیس سے لبریز چونے کے پتھر (Limestone)میں داخل نہیں ہوجاتا ناامیدی و مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ:
·        Cap Rock کسی وجہ سے تحلیل ہوچکی ہو اور یہ قیمتی ذخیرہ اب اپنی جگہ پر موجود نہ ہو۔
·        ذخیر ے کا حجم بہت حقیر سا ہو یا خاکم بدہن یہاں تیل و گیس کے بجائے پانی جوش مار رہاہو
·        ذخیرہ کرنے والی چٹانوں کے مسامات  آپس میں جڑے ہوئے نہ ہوں جسکی وجہ سے ان میں موجود مایع حرکت پر آمادہ نہ ہو
تاہم اگر اس کنوویں سے تیل و گیس کی نفع بخش مقدار نہ مل سکی تب بھی  اسکے نتیجے میں جو معلومات حاصل ہونگی وہ بھی کم قیمتی نہیں۔ انکی بنیاد پر نئے کنویں کی منصوبہ بندی مزید اعتماد کے ساتھ کی جا سکے گی۔ 

No comments:

Post a Comment