یمن میں خانہ جنگی بند کرو!! امریکی کانگریس
کی قرارداد
آج امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے 175 کے مقابلے میں 247 ووٹوں سے ایک مسودہ
قانون (بل) کی منظوری دیدی جس میں امریکی صدر پر زور دیا گیا ہے کہ وہ امریکہ کو
یمن جنگ سے علیحدہ کرلیں۔ اس
قرارداد کو امریکی سینیٹ 46 کے مقابلے میں
54 ووٹوں سے پہلے ہی منظور کرچکی ہے جہاں
صدرٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی سے وابستہ 7 سینیٹرز نے جماعتی وابستگی سے بالاتر
ہوکر بل کے حق میں ووٹ دیا۔
امریکہ کے خلیجی اتحادیوں سعودی
عرب اور متحدہ عرب امارات نے یمن
میں حوثی باغیوں
کے خلاف گزشتہ تین سال سے
فوجی کاروائی جاری رکھی
ہوئی ہے۔ مصر بھی اس جنگ میں خلیجیوں کے شانہ بشانہ ہے۔ سعودی عرب اور UAEکاکہنا ہے کہ
ایران یمن پر قبضہ کرنا چاہتا ہے
اور حوثی دراصل ایران کے پاسدارانِ
انقلاب ہی ایک شکل ہے۔ امریکہ اس
جنگ میں براہ راست شریک نہیں لیکن اسکے ٹینکر بردار ہوائی جہاز یمن پر حملے
کے لیےجاینوالے سعودی ، مصری اور متحدہ عرب امارات کے جنگی طیاروں کو فضا میں ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ امریکہ اپنے خلیجی اتحادیوں کو حوثیوں کے بارے میں خفیہ معلومات بھی دیتا ہے۔
بل میں
جنگ سے متعلق امریکی صدر کے اختیار (War Power Act)کا حوالہ دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کو باور کرایاگیا ہےکہ
کانگریس نے امریکی صدر کو جنگی کاروائی
میں حصہ لینے کا اختیار نہیں دیا۔قرارداد
میں مطالبہ کیا گیا کہ جنگ میں مصروف سعودی اور متحدہ عرب امارات کی فوج سے امریکی
تعاون ختم کردیا جائے۔
بحث کے
دوران اس جنگ کے چند افسوناک پہلووں کی نشاندہی کی گئی:
·
سعودی فضائیہ یمن میں آبنوشی کے ذخائر کو نشانہ
بنارہی ہے اور صاف پانی کی نایابی کی بنا پر وہاں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی
ہے۔
·
ایک جائزے کے مطابق 60 ہزار شہری خلیجی طیارو ں
کی بمباری سے ہلاک ہوئے ہیں
·
شدید غذائی قلت کی بنا پر لاکھوں یمنی بچے ذہنی
اور جسمانی طور پر معذور ہوگئے ہیں۔
ضابطے کے
تحت کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی
آج ہی اس بل کو منظوری کیلئے صدر ٹرمپ کو
بھیج دینگی۔ تاہم وہائٹ ہاوس کے ذرائع کا
کہناہے کہ امریکی صدر اس بل کو ویٹو یا نامنظور کردینگے۔ امریکی کانگریس صدر کے ویٹو کو دوتہائی اکثریت سے غیر موثر
کرستی ہے لیکن قرارداد کی حمائت میں اتنے
ووٹوں کی توقع نہیں۔ یعنی یہ مسودہ قانون ردی کی ٹوکری میں جاتا نظر آرہا ہے۔
تاہم کانگریس امریکی عوام کی امنگوں کی
ترجمان ہے لہذا ویٹو کے باوجود یہ قرارداد ایسی بے وقعت بھی نہیں۔
No comments:
Post a Comment