تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
5 سال کی
پراسرار خاموشی کے بعد داعش کے سربراہ 48
سالہ ابوبکرالبغدادی ایک بار پھر میڈیا کےسامنے آگئے۔ سامرا عراق میں پیدا ہونے والے بغدادی صاحب معلوم نہیں کس مٹی کے بنے ہیں
کہ انکا کچھ سراغ ہی نہیں ملتا۔ موصوف کے
سر کی ڈھائی کروڑ ڈالر قیمت رکھی گئی تھی اور یہ 2 فروری 2004 کو امریکی فوج کے ہاتھوں فلوجہ، عراق سے گرفتار
بھی ہوگئے۔انکی گرفتاری کا اعلان خود صدر بش نے کیا جنکا کہنا تھا کہ بدنام ترین
دہشت گرد کو ہمارے جوانوں نے اپنی جان پر
کھیل کر پکڑا ہے۔ البغدادی کو عراق کی بدنام زمانہ ابوغریب جیل میں رکھا گیا لیکن
اچانک انھیں دسمبر 2004 میں رہا کردیا
گیا۔ جی ہاں یہ فرار نہیں ہوئے بلکہ انھیں باعزت طریقے پر رہا کیا گیا۔
رہائی کے کچھ عرصے بعد داعش بنی اور بنتے
ہی عراق و شام پر چھاگئی۔ القاعدہ تو چھاپہ مار تھے لیکن داعش ایک منظم فوج تھی
جسکے بعد ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر تھے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ یہ جدید ہتھیار انھوں نے کس
سے خریدے اور یہ کھیپ ان تک کیسے پہنچی۔ جلد ہی داعش نے شام میں دیرہ زور میں تیل
کے میدانوں پر قبضہ کرلیا اور اپنی دفاعی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے شامی تیل دھڑلے
سے فروخت کرنے لگے۔ تیل کے میدان پر قبضے
کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن دیرہ الزور سے تیل ٹینکرو ں کاسینکڑوں میل کا سفر کرکے بحرروم کی بندرگاہوں تک جانا سمجھ ہےبالاتر جبکہ دیرالزور سے مغرب میں یہ سارا علاقہ شامی فوج کے کنٹرول میں تھا۔
جناب بغدادی صاحب کئی
بار 'ہلاک' بھی کئے گئے۔ اپریل 2015سے 2017تک
8 بار شامی، عراقی، ایرانی، روسی
اور امریکی فوج نےانکی موت کا دعویٰ کیا
اور ہر بار اسے 100 فیصد درست قراردیا گیا۔ لیکن کل یوٹیوب
پر انکا ایک چیختا چنگھاڑتاخطاب جاری ہوا جس میں انھوں نے سری لنکن 'مجاہدین'
کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جہاد کو ایشیا منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گویا
اب برما کے بعد سری لنکا، تھائی لینڈ اور
فلپائن کے مو رو مسلمانوں کی نسل کشی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اللہ ان بیچارو ں پر رحم
کرے کہ داعش کا ظہور بلاوں کے نزول کی علامت ہے۔
No comments:
Post a Comment