رعب ہو تو ایسا۔۔۔۔
گزشتہ ہفتے جب امریکی
وزیرخارجہ نے اعلان کیا کہ ایرانی تیل کی فراہمی پرپابندی سے 6 ملکوں کو6 ماہ کا
جو استثنیٰ دیا گیا تھا اس میں تجدید نہیں ہوگی تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کا
رجحان پیدا ہوا۔
پابندیوں کا پس منظر
کچھ اسطرح ہے کہ اس الزام پر ساری مغربی دنیا نے ایران کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد
کردی تھیں کہ اسلامی جمہوریہ اپنے جوہری پروگرام
کو ہتھیار بنانے کیلئے استعمال کررہا ہے۔
2015میں ایران نے
سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کے علاوہ ، جرمنی اور یورپی یونین سے ایک معاہدہ کیا جسکے تحت
تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو منجمد
کردیا ۔ یہ معاہدہ انگریزی میں JCPOAاور فارسی میں برنامہ جامع اقدام مشترک یا برجام کہلاتا ہے۔اسکے عوض ایران پر سے تجارتی
پابندیاں اٹھالی گئیں۔
صدر ٹرمپ اور اسرائیل
کو یہ معاہدہ پسند نہیں تھا اور امریکی صدراپنی انتخابی مہم کی دوران JCPOAکو صدر اوباما کی
شکست قراردیتے رہے۔ گزشتہ برس انھوں نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے امریکہ کو JCPOAسے علیحدہ کرلیا اور
اسکے ساتھ ہی ایران پر تجارتی پابندیاں لگادیں اور ساری دنیا کو 'حکم' دیا کہ وہ ایرانی تیل کی خریداری بند کردیں ورنہ
ان ممالک پر بھی پابندیاں عائد کردی جائینگی جو ایرانی تیل خریدینگے۔ پابندیوں
کیلئے کزشتہ 4 نومبر کی تاریخ طئے ہوئی
ایران ساری دنیا کو 22 لاکھ بیرل تیل یومیہ فراہم کرتا ہے۔ چین،
ہندوستان، جاپان اور جنوبی کوریا ایرانی تیل کے بڑے خریدار ہیں جبکہ کم مقدار میں ترکی اور اٹلی بھی اس سے تیل خریدتے ہیں۔
اس خطرے کے پیشِ نظر
کہ بندش سے کہیں تیل کی کمی نہ ہوجائے صدر ٹرمپ نے اپنےخلیجی دوستوں MBS اور MBZ سے تیل کی
پیدوار بڑھانے کی 'درخواست' کی جسے ان ممالک نے فوراً منظور کرلیا۔ اسی کے ساتھ
روس نے بھی اپنی پیداوار بڑھادی۔ دوسری طرف امریکی تیل کی پیدوار میں برابر اضافہ ہورہا ہے اور کچھ عرصے سے 25 لاکھ بیرل امریکی تیل ایشیائی منڈی میں اوپیک کے مقابلے پر ہے۔
جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کوئت نے کروڑوں ڈالر
اضافی خرچ کر کے پیدوار میں اضافہ کیا تو اچانک U-Turnلیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ان 6 ملکوں کو 6 ماہ کیلئے ایرانی
تیل کی خریداری سے استثنیٰ دیدیا ۔ نتیجے
کے طور پر قیمتیں زمین پر آرہیں۔ اپنے دوست کی اس حرکت پر
خلیجیوں کو غصہ تو بہت آیا لیکن قہرِ درویش بر جان درویش۔
21 اپریل کو امریکی
وزیرخاجہ مائک پومپیو نے اعلان کیا کہ 4 مئی کو 6 ماہ کا استثنیٰ ختم ہونے کے بعد کسی ملک کو ایرانی تیل
خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس خبر کے ساتھ ہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ور خام تیل 67 ڈالر فی بیرل فروخت ہونے لگا ۔ ماہرین کا
خیال تھا کہ 4 مئی کے بعد یہ قیمت 75 سے 80 ڈالر کے درمیان ہوجائیگی۔
آج صبح صدر ٹرمپ نے
ایک بار پھر اوپیک ممالک خاص طور سے سعودی عرب،
UAE اور کوئت پر
زوردیا کہ تیل کی قیمتوں میں استحکام پیدا کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کریں۔
صدر ٹرمپ کے اس ٹویٹ کے ساتھ ہی بازار میں تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگئی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پیداواربڑھانے کا عندیہ دیا ہے جبکہ
روس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اوپیک دوستوں کے ساتھ مل کرآئندہ کی حکمت عملی طئے
کریگا۔ یعنی اب ایک بار پھر رسد طلب سے بڑھ جائیگی۔
یہ تو تھی تیل اور
تیل کی دھار۔ اصل بات اس دنیا کی کہ جہاں
اب دیانت تو ایک طرف
روداری بلکہ آنکھ کی شرم نام کو بھی باقی نہیں رہی۔
ایران نے 6
ملکوں سے معاہدہ کیا اور انکی تمام
شرائط قبول کرتے ہوئے نہ صرف
جوہری پروگرام کو منجمد کردیا بلکہ اپنے
ملک کے دروازے بھی جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEAکیلئے
کھولدئے۔ امریکہ سمیت IAEAسے وابستہ دنیا بھر کے ماہرین سال میں
دومرتبہ ایران کا دورہ کرکے اسکی تمام
تنصیبات کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں۔ یہ انسپکٹر پورے ملک
میں جہاں چاہیں جاسکتے ہیں اور ہر عمارت ، دفتر ، کارخانے،عسکری و شہری
تنصیبات۔ بجلی کے کارخانے۔ گیس پلانٹ حتیٰ
کہ کھاد بنانے کے کارخانوں تک بھی انکو غیر مشروط رسائی حاصل ہے۔ ان انسپیکٹروں کو
لامحدود مدت کے multiple entryویزے جاری کئے گئے
ہیں اور یہ لوگ جب چاہیں تہران کو پیشگی
اطلاع دئے بغیرمعائنے کیلئے ایران آسکتے ہیں۔
اب تک ایرانی تنصیبات
کا 6 سے زیادہ بار معائنہ کی گیا ہے وہ ان
انسپیکٹروں کی متفقہ رپورٹ کے مطابق ایران
JCPOAمعاہدے پر دستاویز کے
الفاظ اور روح کے مطابق انتہائی اخلاص سے
عمل کررہا ہے لیکن صدر ٹرمپ اوراسرائیل کے
'میں نہ مانوں' نے برسوں کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعدطئے پانے والے معاہدے کو ایک
مہمل ردی میں تبدیل کردیا۔ ستم ظریفی کہ روس و چین جیسے عالمی جغادریوں کوبھی اس یکطرفہ معاہدہ
شکنی پر ایک لفظ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی
اوروعدہ خلافی کے ساتھ ساری دنیا اب 8 کروڑ ایرانیوں کو بھوکا ماردینے پربھی متفق و
پرعزم نظر آرہی ہے۔اا پس منظر میں ایران کے پاس آبنائے ہرمز بند کرکے خلیجی تیل کی
برآمد روک دینے کے سوا اور کیا راستہ باقی بچاہے؟؟ تاہم ایسا قدم اٹھانے کی صورت
میں سلامتی کونسل تہران کو دہشت گرد ملک قراردیدیگی۔
No comments:
Post a Comment