Saturday, April 27, 2019

سری لنکا میں گرجا گھرو ں پر حملے ایشیا کا 9/11؟؟؟؟


سری لنکا میں گرجا گھرو ں پر حملے ایشیا کا 9/11؟؟؟؟
ایسٹر پر سری لنکا میں مسیحی گرجا گروں کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جسے  ایشیا کا 9/11کہا جارہا ہے اور اسی انداز میں اسکے خلاف رد عمل بھی نظر آرہا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کا اصل ہدف وسط سری لنکا میں آباد مسلمان تاجر ہیں  اور چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں اور تجارتی تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ گزشتہ برس مارچ میں بھی یہاں مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں جس میں مسلمانوں کی اربوں روپئے کی جائداد کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔
سری لنکا کی کل آبادی دو کروڑ 10 لاکھ سے کچھ زائد ہے۔ جسکا 70 فیصد حصہ سنہالی نژاد بودھ اور 24 فیصد سری لنکن تاملوں پر مشتمل ہے جبکہ 6 فیصد ہندوستانی نژادتامل بھی کئی صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ سری لنکن تاملوں میں مسلمانوں کا تناسب 41.6 فیصد ہے گویاسری لنکا کی کل آبادی کا دس فیصد حصہ مسلمان ہے جنھیں مور Moors کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے مور کا لفظ سب سے پہلے ہسپانیہ میں استعمال ہوا۔اب یورپ کے اکثر ممالک خاص طور سے فرانس اور ہالینڈ میں شمالی افریقہ (الجزائر، مویطانیہ، لیبیا، مراکش، تیونس)کے مسلمانوں کیلئے مور کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فلپائنی مسلمانوں کو مورو فلیپینو Moro Pilipino کہا جاتا ہے اور شائد اسی بنا پر سری لنکا کے تامل مسلمان بھی مور کہلاتے ہیں۔ (لفظ مور کے تاریخی پس منظر کیلئے ملاحظہ ہو ہمارا مضمون جو فرائیڈے اسپیشل میں 2 جون 2017 کو شایع ہوا)۔  ہندوستانی تامل زیادہ تر عیسائی ہیں۔
سری لنکا کی مور آبادی تجارت پیشہ، تعلیمیافتہ اور خوشحال ہے۔  وسطی صوبے کے سب سے بڑے شہر کینڈی Kandyمیں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ اس شہر کا اصل نام  مہانورا Mahanuwara ہے جسکا مطلب ہے عظیم الشان شہر لیکن سارا شہر ی علاقہ خوبصورت کینڈی سطح مرتفع پر آباد ہے اسلئے شہر کا نام کینڈی پڑگیا۔ پہاڑی محل وقع اور وافر بارش کی وجہ سےیہ علاقہ چائے کیلئے بہت سازگار ہے جہاں مشہور زمانہ سلیون چائے کاشت کی جاتی ہے جسکی تجارت کا بڑا حصہ مسلمانوں کے پاس ہے۔ کینڈی بودھوں کے چند مقدس ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے اور انکے عقیدے کے مطابق گوتم بدھ کے دندانِ مبارک یہاں کے ایک مندر میں تبرکاً رکھے گئے ہیں جو مقدس دانت کے مندر کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں کا مدینہ سینٹرل کالج سارے ملک کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ جو 1935 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ دراصل ایک اقامتی اسکول ہے جہاں پہلی سے میٹرک اور اسکے بعد پولی ٹیکنک کی تعلیم دی جاتی ہے اور ذریعہ تعلیم انگریزی اور تامل ہے۔ابتدائی کلاسوں میں مسلمان بچوں کو ناظرہ قرآن بھی پڑھایا جاتا ہے۔ زراعت کے حوالے سے یہ چائے پر تحقیق کا علاقائی مرکز ہے۔ مدینہ کالج میں طالبات کا تناسب 55 فیصد ہے۔ یہ درسگاہ جدید ترین سہولیات سے مزین ہے جس میں تیز ترین انٹرنیٹ اور کمپیوٹر شامل ہیں۔ مدینہ اسکول ایک چھوٹے سے گاوں مداولا Madawalaمیں واقع ہے اور اس اسکول کی وجہ سے مداوالا سارے سری لنکا کا سب سے ترقی یافتہ گاوں سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ ایک سال سے سوشل میڈیا پر بودھ انتہاپسندوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی مہم شروع کر رکھی ہے۔ بودھوں کو مسلمانوں کی دعوتی مہم پر سخت اعتراض ہے۔ سنہالی خواتین میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جسکی وجہ سے نسل پرست بودھ مشتعل ہیں اور الزام لگارہے ہیں کہ چادروں میں لپٹے بھکشووں کے مقابلے میں جدید تراش خراش کی پتلون قمیض پہنے  مسلم نوجوان زیادہ وجیہہ نظر آتے ہیں اور پھر زیادہ تر مسلمان تعلیمیافتہ ہیں اور انکی سشتہ انگریزی سے سنہالی لڑکیاں متاثر ہوکر دل اور دھرم دونوں ہار  بیٹھتی ہیں۔ مزے کی بات کہ بالکل یہی شکائت ہندوستانی جن سنگھ کو بھی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ہندو لڑکیوں کو ادرک، لہسن، دھنیا اور پیاز میں پکی سبزی کھانے والے ہندووں کے لاغر سانولے جسم اور ان سے امڈتی گرم مصالحے کی لپٹیں سخت ناگوار محسوس ہوتی ہیں۔ اسکے مقابلے میں انھیں بیف کباب، مٹن کڑاہی اور چکن تکہ کھانے والے مضبوط، دراز قدا ور قدرےسرخ و سفید مسلے زیادہ وجیہہ نظر آتے ہیں۔ بیچارے مور نوجوانوں پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انھیں عطریات کے استعمال کا بہت شوق ہے جسکی وجہ سے انکا بانکپن مزید نکھر گیاہے۔ برما سے چند سو روہنگیا مہاجروں کی سری لنکا آمد پر بھی بودھوں کو سخت اعتراض ہے۔ سری لنکن سوشل میڈیا پر زہر اگلنے والے زیادہ تر برما کے انتہا پسند ہیں۔
گرجا گھروں پر حملے کے بعد اس مہم میں شدت آگئی ہے۔ فوجی کاروائیوں کے دوران مسلمان تاجروں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپوں کے دوران داعش کے پرچم اور نفرت انگیز لٹریچر کی 'برآمد' ہورہے ہیں۔ اس مہم کے ذریعے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ گویا کینڈی داعش کا گڑھ ہے اور یہاں آباد ہر مسلمان ان دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔
سری لنکا کے فسادات کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہاں بھی برما والی حکمت عملی استعمال کی گئی یعنی مسلمانوں کو انکے گھروں سے نکال کر مساجد میں ٹھونس دیا گیا اور  مسلح بودھ دہشت گرد راکھ بنے بازار اور مکانات کے ملبے پر پہرا دیتے رہے تاکہ مسلمان واپس نہ آسکیں۔ سوشل میڈیا پر زہریلی مہم جاری ہے جس میں مسلمانوں کو ہندوستانی تامل قراردیا جارہا ہے جنکے آباواجداد نے یہاں آکر سنہالیوں کی زمینوں اور جائداد پر قبضہ کرلیا ہے اور اب یہ 'گھس بیٹھئے'دعوت و تبلیغ اور 'جہاد' کے زور سے بودھوں کو اقلیت میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔




No comments:

Post a Comment