Thursday, April 18, 2019

جولین اسانج ۔۔ صحافی، الیکٹرانک نقب زن یا digitalدہشت گرد؟؟؟؟


جولین اسانج ۔۔ صحافی، الیکٹرانک نقب زن یا digitalدہشت گرد؟؟؟؟
برطانیہ کی پولیس نے سرکاری راز افشا کرنے والے ادارے 'وکی لیکس' (WikiLeaks) کے بانی جولین اسانج گرفتار کر لیا ہے۔جولین اسانج نے گرفتاری سے بچنے کے لیے 2012 میں لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لی تھی اور وہ گزشتہ سات سالوں سے وہاں تہہ خانے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مقیم تھے۔آسٹریلیا کے47 سالہ جولین اسانج  نے جو تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر پروگرامر ہیں 2006میں الیکٹرانک طباعت کیلئے وکی لیکس کے نام سے  ایک ادارہ قائم کیا جسکا بنیادی مقصد دنیا بھر میں جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کو بے نقاب کرناتھا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وکی لیکس دراصل  الیکٹرانک نقب زنی یا hackingکے لئے قائم کیا گیا تھا جسکا کام حساس امریکی اداروں کے کمپیوٹر نظام سے اہم معلومات چرانا تھا۔
وکی لیکس نے 2010 میں دنیا کو اسوقت ہلا کر رکھ دیا جب  وہ خفیہ ویڈیو افشا کردی گئی جس میں مسلح امریکی فوجی  نہتے عراقی شہریوں کو  کو قتل کرتے دکھائے گئے۔ اسی کے ساتھ افغانستان میں نیٹو افواج کی وحشیانہ بمباری کی لرزہ خیز کلپس ،  امریکی محکمۂ دفاع، خارجہ اور خفیہ اداروں کی سرگرمیوں اور اندرونی خط و کتابت سے متعلق ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ  دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کردی گئیں۔ ان میں سابق صدر جارج بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئر کی ٹیلی فون گفتگو کاوہ ٹیپ بھی شامل تھا جس میں یہ دونوں رہنما کہہ رہے تھے کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اور جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
ایک اندازے کے مطابق وکی لیکس نے مجموعی طور پر  17 لاکھ سے زائد امریکی سفارتی دستاویزات اور خفیہ اداروں کی رپورٹیں انٹرنیٹ پر جاری کیں۔ افغان و عراق جنگ اور ہیلری کلنٹن کے ذاتی Serverسے اڑائے جانیوالے برقی خطوط کے علاوہ جو دستاویزات جاری کی گئیں ان میں 1973 سے 1976کے درمیانی عرصے کی سفارتی ، خفیہ رپورٹیں اور اراکینِ کانگریس کی خط و کتابت شامل ہیں۔ رپورٹوں میں سب سے دلچسپ و سنسنی خیز انکشافات سابق  امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کسنجر کے تحریر کردہ اور انہیں ملنے والے مراسلوں میں سامنے آئے ہیں۔ان دستاویزات میں پاکستان سمیت  دنیا کے تقریباً ہر ملک  کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ اور دیگر محکموں کی رپورٹیں موجود ہیں۔جولین اسانج نے دعویٰ کیا کہ وکی لیکس کا عملہ امریکہ کےٓ محفوظ دستاویز خانے یا (National Archive) میں موجود ان دستاویزات کی گزشتہ ایک برس سے چھان پھٹک کر رہا تھا تاکہ انہیں انٹرنیٹ پر  اشاعت عام کیلئے جاری کیا جاسکے۔ان دستاویزات کی اشاعت  سے امریکہ کو دنیا بھر میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس ضمن میں واشنگٹن کا سرکاری موقف یہ ہے کہ  اس عمل سے امریکی مفادات اور سیکورٹی کو شدید خطرات لاحق ہوئے اور امریکی شہریوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں تھیں۔
 دستاویزات کے افشا کے بعد جب امریکہ کے خفیہ اداروں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ جولین اسانج کو امریکی وزارت دفاع و خارجہ  میں نصب کمپیوٹر نظام کے مخفی کلمہ شناخت یا Pass wordایک سابق امریکی فوجی چیلسی میننگ (Chelsea Manning) نے دئے تھے۔ 31 برس کی چیلسی پیدائشی کے وقت لڑکا تھیں اور انکا نام بریڈلی میننگ رکھا گیا۔ بریڈلی بچپن ہی سے باغی طبیعت کا تھا اور اسکول میں قومی ترانے کے وقت نہ تو کھڑا ہوتا اور نہ ہی دعا کے اختتام پر آمین کہتا۔ اسکا خیال ہے کہ دنیا میں ہر خونریزی کے پیچھے مردوں کا ہاتھ ہے چنانچہ بریڈلی نے آپریشن کے ذریعے اپنی جنس تبدیلی کرالی اور وہ چلیسی کے نام سے پوری لڑکی بن گیا۔ ہمارے مرزاغالب کی طرح چیلسی کا پیشہ آبا بھی سپاہ گری تھا۔ اسکے باپ دادا امریکی بحریہ کے افسر رہ چکے تھے چنانچہ چیلسی بھی فوج میں بھرتی ہوگئی اور اسے عراق بھیج دیا گیا۔چیلسی کمپیوٹرکی ماہر تھی اور  کمپیوٹر کے سیکیورٹی نظام پر اسکی گرفت خاصی مضبوط  تھی چنانچہ وہ فوج کیلئے دشمن کی خفیہ معلومات جمع کرنے کا کام کرتی تھی۔
فوج میں اسے مرد سپاہیو ں نے بہت تنگ کیا۔ جیسے ہمارے یہاں خواجہ سراوں پر کھسرا، ہیجڑا، پپو، چھمک چھلو اور دوسری تحقیر امیز پھبتی کسی جاتی ہے ایسی ہی ذلت کا نشانہ چیلسی کو بھی بنایاگیا۔ اس سے دست درازی ایک عام سے بات تھی اور اکثر اوقات ان زیادتیوں میں افسران بھی اپنے جوانوں کا ساتھ دیتے۔ اسے کئی بار مار پیٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا اوران مظالم کا بدلہ لینے کیلئے اس نے الیکٹرانک نقب زنی کے گر سیکھنے شروع کردئے۔ وہ کمپیوٹر کی ماہر تو تھی ہی لہذا جلد ہی اس نے حساس خفیہ کلماتِ شناخت تک رسائی حاصل کرلی اور لاکھوں کی تعداد میں انتہائی محٖفوظ و حساس  دستاویزات چرا کر جولین اسانج کو بھیج دیں جسے اس نے وکی لیکس پر شائع کردیا۔
جولین اسانج کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک صحافی ہیں اور انھوں نے یہ معلومات اپنے ذرایع سے حاصل کی ہیں۔ لندن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئےجولین اسانج نے کہا کہ صحافتی ضابطہ اخلاق کے تحت وہ معلومات کا ذریعہ مشتہر کرنے کے  پابند نہیں۔ تاہم امریکہ کے خفیہ اداروں کی نشاندہی پر چیلسی میننگ کو قومی راز چرانے کے جرم میں عراق سے گرفتار کرکے کورٹ مارشل کیلئے کوئت کے امریکی فوج اڈے منتقل کردیا گیا۔ فوجی عدالت نے چیلسی کو 25 سال قید کی سزا سنائی لیکن 2017 میں صدر اوباما نے اسکی سزا معاف کردی۔
چیلسی کی گرفتاری کے ساتھ ہی واشنگٹن نے امریکی حکومت کے کمپیوٹر  نظام میں نقب لگانے، قومی راز کی چوری، امریکہ کی سالمیت کو نقصان پہچانے اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے الزامات میں جولین اسانج پر مقدمہ قائم کردیا اور تحویل مجرمان کے معاہدے کے تحت برطانیہ سے جولین کی حوالگی کا مطالبہ کیا ۔ اگر یہ الزامات ثابت ہوگئے تو جولین اسانج کو سزائے موت بھی دیجاسکتی ہے۔
نومبر 2010 میں سوئیڈن کی حکومت نے انکشاف کیا کہ جولین نے قیام سوئیڈن کے دورا ن دو خواتین  پرمجرمانہ حملے کئے تھے جن کی بنیاد پر سوئیڈن کی حکو مت نے اسانج کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔ پروانہ گرفتاری  وصول ہونے پر  برطانیہ نے جولین کی سوئیڈن حوالگی پر رضامندی ظاہر کردی ۔ مسٹر اسانج نے عصمت دری کےالزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ سوئیڈن کے حکام بیہودہ الزامات کا سہارا لیکر انکو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ 7 دسمبر 2010کو وہ برطانوی پولیس کے سامنے پیش ہوگئے جس نے انھیں  گرفتار کرکے ملک بدری کی کاروائی شروع کردی۔ جولین نے ان اقدامات کو عدالت میں چیلینج کردیا اور دس دن بعد وہ ضمانت پر رہا کردئے گئے۔ مقدمہ چلتا رہا اور جولین نے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھا۔ سماعت کے آخری دنوں جولین کو  اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ مقدمہ ہارجائینگے اور یہ بات یقینی تھی کہ  عدالتی فیصلہ آتے ہی انھیں سوئیڈن کے حوالے کردیا جائیگا چنانچہ وہ 8 جون 2012 میں لندن کے ایکودؤر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور سیاسی پناہ کی درخواست دیدی۔ ایکوڈور حکومت کے نام انھوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ وہ ایک صحافی ہیں اور امریکی حکومت  تنقید سے مشتعل ہوکر ان پر جھوٹے الزامات لگارہی ہے۔ سویڈن میں انکے خلاف امریکہ کی ایما پر مجرمانہ حملوں کا جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ قائم کیا گیا ہے جسکا بنیادی مقصد  انکی امریکہ منتقلی ہے جہاں انھیں سزائے موت دیدی جائیگی۔ دوماہ بعد ایکوڈور نے انکی سیاسی پناہ کی درخواست منظور کرلی اور وہ اسکے بعد سے وہیں سفارتخانے میں مقیم بلکہ محصورتھے۔
ایکوڈور کی جانب سے جولین کو سیاسی پناہ دینے پر برطانیہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ برطانوی وزارت خارجہ نے دھمکی دی کہ انکی حکومت قانون کے تحت ایکوڈور سفارت خانے  کاسفارتی درجہ معطل و  منسوخ کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن لندن نے اپنی اس دھمکی پر عملدرآمد سے گریز کیا۔
مئی 2017 میں سوئیڈن حکام نے جولین کے خلاف تحقیقات معطل کردیں۔سوئیڈش حکام کا کہنا تھا کہ  ملزم پر فردِ جرم عائد کرنے کی قانونی مدت پوری ہونے اور تفتیش میں پیش رفت نہ ہونے کے سبب اسانج کے خلاف تحقیقات وقتی طور پر روکی جارہی ہی۔لیکن حکام نے واضح کردیا ہے کہ جولین اسانج پر ایک خاتون سے زیادتی کا الزام بدستور برقرار ہے جس کی تحقیقات کے لیے سوئیڈش استغاثہ مسٹر اسانج تک رسائی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔ سوئیڈن کے قانون کے مطابق مذکورہ الزام میں تفتیش 2020 تک جاری رہ سکتی ہے۔
دسمبر  2017میں  جولین اسانج  کو ایکوڈور کی شہریت بھی دیدی گئی۔اسکے باوجود وہ سفارتخانے کی عمارت سے باہر نہیں نکلے۔ جولین اسانج کو ڈر تھا کہ چونکہ انھوں نے دورانِ ضمانت سیاسی پناہ لی تھی لہٰذا برطانوی پولیس انھیں ضمانت کی خلاف وزری پر گرفتار کرسکتی ہے۔اسکے علاوہ واشنگٹن  بھی جولین کی امریکہ منتقلی کیلئے دباو ڈال رہا تھا۔
اس دوران امریکی انتظامیہ میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ صدر جارج بش کے بعد صدراوباما اور صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا لیکن جولین اسانج کی امریکہ منتقلی کے امریکی عزم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور امریکی حکام مسٹر اسانج کی امریکہ حوالگی پر مسلسل اصرارکرتے رہے۔
2016کے امریکی انتخابات کے دوران جولین اسانج ایک بار پھر سرگرم ہوئے اور انھوں نے ڈیموکریٹک امیدوار ہیلی کلنٹن کے بہت سارے برقی خطوط(email)وکی لیکس پر جاری کردئے۔ وکی لیکس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ خط ہیلری کلنٹن کے ذاتی serverسے اڑائے ہیں۔ اسے بنیاد بناکر ڈانلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ وزارت خارجہ کے دنوں میں ہلیری کلنٹں کمپیوٹر پرحساس خط و کتابت کیلئے اپنا ذاتی serverاستعمال کرتی تھیں جو امریکی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اپنی مہم کے دورا ں ٹرمپ نے کھل کر وکی لیکس کی تعریف کی جو بقول انکے امریکی عوام کو ہیلری کا حقیقی چہرہ دکھارہا ہے۔ امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے FBIکی تحقیقات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ ہلیری کلنٹن سرکاری چٹھیوں کیلئے نجی serverاستعمال کرتی تھیں جو غیر محفوظ اور اس کام کیلئے موزوں نہ تھا۔ امریکہ کے تحقیقاتی اداروں نے اس بات پر ناراضگی و افسوس کا اظہار بھی کیا۔ اسی کے ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا کہ ہیلری کلنٹن کے پرائیویٹ serverمیں روس کی خفیہ ایجنسیوں نے نقب لگائی اور دستاویزات چرا کر وکی لیکس کے حوالے کردیں۔
دوسری جانب انکشافات کے شوقین جولین اسانج اپنے محسنوں کی غلطیوں پر بھی پردہ نہ رکھ سکے اور ایکوڈور کے صدر لینن مورینو (Lenin Moreno)کی مبینہ مالی بد عنوانیوں کی تفصیلات وکی لیکس پر شائع کردیں، اسی کے ساتھ صدر لینن کے خفیہ  بینک اکاونٹ اور روسی خواتین کے ساتھ انکے تعلقات کے بارے میں بھی سنسنی خیز انکشافات وکی لیکس پر آگئے جنھیں مبینہ طور ہر جولین اسانج نے فوری طور پر حذف کردیا لیکن تیر کمان سےنکل چکا تھااور صدر لیین مورینو اس بات پر  سخت چراغ پا ہوئے۔ انھیں جولین سے اس بیوفائی کی توقع نہ تھی۔ 2012 میں جب جولین کو پناہ دینے کا معاملہ اٹھا اسوقت لینن مورینو ایکوڈور کے نائب صدر تھے۔ انھوں نے کابینہ اجلاسوں میں تحفظ اظہار رائے کے نام پر جولین کو پناہ دینے کی پرجوش حمائت کی تھی۔ اسی بناپر انکو 2012 کے نوبل امن انعام کیلئے نامزد بھی کیا گیا تھا۔  اورپھر لینن مورینو ہی کی سفارش پر جولین کو ایکوڈور کے شہریت عطاکی گئی۔
غصے سے بھرے ایکوڈور کے صدر نے مبینہ طور پر  صدر ٹرمپ کے ساتھی اور انکی انتخابی مہم کے سابق سربراہ پال منافورٹ سے ایک ملاقات میں کہا کہ وہ  لندن میں  اپنے سفارتخانے سے جولین اسانج کی بیدخلی پر غور کررہے ہیں۔ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیق کرنے والے رابرٹ موئلر نے  اس ملاقات کی تصدیق کی جو 2017 میں کسی وقت ایکوڈور کے دارلحکومت کیٹو (Quito)میں ہوئی تھی۔
 وکی لیکس کے ذرایع الزام لگارہے ہیں کہ  جولی اسا نج کی سفارت خانے سے بیدخلی کی ایک وجہ ایکوڈور کی حالیہ مالی پریشانیاں  ہیں جسکے لئے اس نے عالمی مالیاتی فنڈ یا IMFکو قرض کی درخواست دی تھی۔ فیصلے کے ناقدین کا کہناہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے قرض کے اجرا کیلئے جولی اسانج کی بیدخلی کی شرط عائد کی تھی۔ اس دعوے کی کسی آزاد ذریعے سے اب تک تصدیق نہیں ہوسکی لیکن عجیب اتفاق کہ ایکوڈور کیلئےمنظور کئے جانیوالے  4.2 ارب ڈالر قرض کی 65 کروڑ 20لاکھ ڈالر کی پہلی قسط 11 مارچ کو جاری ہوئی  اور 11 اپریل کو ایکوڈور کے صدر نے جولین اسانج کی سیاسی پناہ بیک جنبش قلم منسوخ کردی اور اسی روز برطانوی پولیس نے ایکوڈور کے سفارتخانے میں داخل ہوکر جولین اسانج کو حراست میں لے لیا۔ایکوڈور کے صدر کا کہنا ہے کہ جولین اسانج سفارتخانے میں قیام کے دوران ضابطہ اخلاق کی صریح خلاف وزری کے مرتکب ہورہے تھے۔ انکا کمرہ بے حد غلیظ تھا اور انھیں رات کو کئی بار اوپری منزل کے دفاتر میں دیکھا گیا۔ وہ حفاظت کے معاملے بھی انتہائی لاپرواہ تھے اور انتباہ کے باوجود رات کو چولہے پر ہانڈی چڑھاکر سوجاتے اور کئی بار انکا کمرہ دھویں سے بھرگیا۔
 پولیس کے مطابق اس نے ایکواڈور کے سفیر کی اجازت سے جولین اسانج کو حراست میں لیا ہے جنہیں جلد عدالت کے روبرو پیش کر دیا جائے گا۔ایکواڈور کے صدر نے کہا ہے کہ انہیں برطانیہ کی حکومت نے تحریری یقین دہانی کرائی ہے کہ اسانج کو کسی ایسے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا جہاں انہیں تشدد یا موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑے۔وکی لیکس نے الزام عائد کیا ہے کہ ایکواڈور کی حکومت کی جانب سے اسانج کی سیاسی پناہ ختم کرنے کا اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف ایکواڈور پر برطانوی حکومت کا غصہ اب تک ختم نہیں ہو۔ 11 اپریل کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں برطانیہ کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایکواڈور کی حکومت نے تین سال قبل جولین اسانج کو پناہ دے کر انصاف کی فراہمی کا راستہ روکا تھا جس کا اسے احساس ہونا چاہیے۔انکا کہناہے کہ جولین اسانج کے فرار کو روکنے کیلئے سفارتخانے کی نگرانی پر برطانوی حکومت کے کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ ایکواڈور کے وزیر خارجہ ریکارڈو پاٹینو پرامید ہیں کہ جولین کی بیدخلی سے  برطانیہ اور ایکواڈور کے درمیان  تناؤ کم ہوگا۔
جولین اسانج کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ برطانیہ کا کہناہے کہ وہ اسانج کو اپنے ملک سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم نہیں کرے گااور یہ کہ وہ انہیں سویڈن بھیجنے کا پابند ہے۔ لیکن اس معاملے پر برطانوی حکومت کو خود اپنے ملک میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ ایکواڈور کے سفارت خانے کے باہر اسانج کے حق میں مظاہر وں کاسلسلہ جاری ہے اور پولیس کئی افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کا مطالبہ کیا ہے۔ لیبر پارٹی کی رہنما ڈائن ایبٹ Dianne Abbottنے کہا کہ ایک جولین اسانج سات سال تک عملاً قید تنہائی میں رہےجسکی وجہ سے انکا تفصیلی طبی معائنہ ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ بیدخلی کے مقدمے کی سامنا کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں بھی یا نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی جولین کو قلم و ضمیر کا قیدی قراردیتے ہوئے انکی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ایکوڈور حکام کا کہنا ہے کہ اگر جولین اسانج اپنے ملک (ایکوڈور) آنا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائیگا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ سماجی انصاف آزادی اظہار اور عوامی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں جولین اسانج کو ایک صحافی اور آزادی اظہار رائے کا کارکن قراردے رہی ہیں، امریکہ کیلئے وہ ایک الیکٹرانک نقب زن اور ڈیجیٹل دہشت گرد ہیں تو سوئیڈن کیلئے ایک مفرور ملزم۔ دیکھنا ہے کہ برطانوی عدلیہ انکے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔
ہفت روزہ فرائڈے اسپیشل کراچی 19 اپریل 2019

No comments:

Post a Comment