Friday, February 22, 2019

جوش ملیح آبادی


شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی
آج 22 فروری حضرت جوش ملیح آبادی کی 37 ویں برسی ہے۔ اس موقع پر انکی کتاب 'یادوں کی بارات' سے انکے پہلے مشاعرے کی روداد اور چند اشعار:
یہ غالباً 1910 یا 1911 کی بات ہے کہ میں اپنے باپ کی معیت میں حضرت مولانا رضا فرنگی محلی کے مشاعرے میں سب سے پہلی بار شریک ہوا اور دنگ رہ گیاتھا۔آئیے میں آپ کو مشاعرے میں لے چلوں تاکہ آپ خود دیکھ لیں:
  شفاف چاندنی بچھی ہوئی ہے، چاندنی پر قالین ہیں، گاو تکیے دیواروں سے لگے ہیں۔ ادھر ادھر صاف ستھرے اگالدان، بیچ میں ہار لپٹے حقے، شال باف سے منڈھی ہوئی چھوٹی چھوٹی کوری ہانڈیاں، ہانڈیوں میں چاندی کے ورق کی معطر گلوریاں اور الائچی والےتمباکو اور قوام کی ڈبیاں رکھی ہوئی ہیں۔ شعرا زیادہ تر انگرکھے اور کم تر شیروانی پہنے اپنے اپنے مراتب کے لحاظ سے دوزانو بیٹھے ہوئے ہیں۔ سب کے سر پر ٹوپیاں ہیں۔ سامعین میں کوئی بھی ننگے سر نہیں ہے۔ آپس میں آہستہ آہستہ باتیں ہورہی ہیں، گلوریاں کھائی اور حقے پئے جارہے ہیں اور جو شاعر مشاعرے کے فرش پر قدم رکھتا ہے وہ حاضرین کو جھک جھک کر غیرِ ملفوظ کر رہا ہے۔ حاضرین کے حسب مرتبہ نیم قد یا سروقد جوابی سلاموں سے اسکا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
 لیجئے اب میر مشاعرہ کے سامنے شمع آگئی اور مولانا رضا کی غزل سے حسب دستور مشاعرے کا آغاز ہوا ہے اور داد سے چھت گونجنے لگی ہے۔ کس کی مجال ہے کہ اثنائے غزل خوانی میں کوئی مصرح نہ اٹھائے، حقہ پی لے، پان کھالے، آپس میں سرگوشی کرنے لگے یا کوئی ادھر سے اٹھ کر ادھر بیٹھ جانے کی جسارت کرسکے۔ میر مشاعرہ کے بعد اب شمع گردش کر رہی ہے نومشق نوجوانوں کی صفوں میں اور کمی بیشی کے ساتھ سب کو داد مل رہی ہے اور معمولی اشعار کے سروں پر بھی ماشااللہ کے سہرے باندھے جارہے ہیں۔
 لیجئے نومشقوں میں میری بھی باری آگئی۔ ارے غضب ہوگیا شمع سامنے رکھی ہوئی ہے۔ رعبِ محفل سے میں کانپ رہا ہوں۔ شعرا کی صفوں سے آوازیں آرہی ہیں بسم اللہ کیجئے صاحبزادے بسم اللہ لیکن صاحبزادے کا دم نکلا ہوا ہے کیا مجال کہ منہہ سے ایک حرف بھی نکل سکے۔ اب میرے باپ مجھ سے فرمارہے ہیں 'پڑھتے کیوں نہیں پٹھان کا بیٹا تو بارہ برس کی عمر سے رن میں تلوار چلانے لگتا ہے اور ایک تم ہو کہ تم سے غزل نہیں پڑھی جارہی ہے' اب مرزا محمد ہادی رسوا اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پہلو میں آگئے ہیں اور میری پیٹھ ٹھونک کر فرمارہے ہیں 'صاحبزادے آپ تو شاعر ہیں، شاعر کے بیٹے، شاعر کے پوتے اور شاعر کے پڑ پوتے ہیں پڑھئے اور گرج کر پڑھئے' اب بڑی ہمت کرکے میں مطلع پڑھ رہا ہوں۔ مطلع پر داد مل رہی ہے اور میں داد کے نشے میں شعر پڑھ رہاہوں:
اے نسیم صبح کے جھونکو یہ تم نے کیا کیا
میرے خوابِ مست کی زلفیں پریشاں ہوگئیں
میری آنکھیں جانتی ہیں کرب ِ افراطِ خوشی
خندہ زن دیکھا کسی کو اور گریاں ہوگئیں
ہائے میری مشکلو، تم نے بھی کیا دھوکادیا
عین دلچسپی کاعالم تھا کہ آساں ہوگئیں



No comments:

Post a Comment