طالبان کی سفارتی پیشقدمی
افغانستان کے 'اجڈ' 'گنوار'اور 'جاہل' مولویوں نے عسکری محاذ پر تو
اپنی تنظیم و حکمت کا لوہا منوایا ہی ہے، سفارتی میدان میں
بھی انکی پیشقدمی جاری ہے۔ مہذب انداز، متانت، قابل رشک سماعت اور مدلل گفتگو سے ہارورڈ اور برکلے کےپڑھے امریکی
سفارتکار بھی بے حد متاثرہیں۔ طالبان ایک طرف امریکہ سے بات چیت میں مشغول
ہیں تو دوسری طرف روس، چین، ایران
اور پاکستان کے ساتھ افغان سیاستدانوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ طالبان نے افغان
امن کے موضوع پر ہونے والی ماسکو
کانفرنس میں بھی شرکت کی جس میں 'غیر
سرکاری ' افغان سیاستدان شریک ہیں۔ غیر
سرکاری سے مراد وہ لوگ جو کابل انتظامیہ سے وابستہ نہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق 50
کے قریب افغان رہنما اس نشست میں شریک ہیں۔ جن میں سابق افغان صدر حامد کرزئی اور
حزب وحدت کے سربراہ استاد محمد محقق بھی شامل ہیں۔ حزب وحدت شیعانِ افغانستان کی نمائندہ جماعت ہے اور انکی طالبان سے براہ راست ملاقات بے حد
اہم ہے۔
کابل انتظامیہ اور امریکہ امن منصوبے میں روس اور ایران کی
شرکت کے مخالف ہیں لیکن طالبان
کا کہنا ہے کہ وہ روس سمیت اپنے تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات
رکھنا چاہتے ہیں اور روسی حکومت نے 'بھائیوں' سے ملاقات کا جو موقع فراہم کیا ہے
اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائیگا۔
طالبان وفد کے سربراہ نے اس موقع پر کہا کہ غیر ملکی فوج کے
انخلا کے بعد طالبا ن کو اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا کوئی شوق نہیں اور ایک وسیع البنیاد
حکومت میں اقلیتوں سمیت سب کو نمائندگی دی
جائیگی۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے جانوں کی قربانی اپنے امیر کی بادشاہت قائم کرنے
کیلئے نہیں دی بلکہ اٖفغانستان کو ایک مثالی اسلامی ریاست بنایا جائیگا۔ انھوں نے
کہا افغان آئین ہمیں منظور نہیں لیکن اس
میں ترمیم یا اسکی مکمل تنسیخ کا فیصلہ
بھی باہمی مشورے سے کیا جائیگا۔
سابق
افغان صدرحامدکرزئی نے کانفرنس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہ جرگہ افغانوں کا قابل فخر روائت ہے آپس میں بیٹھ کر ہی بات چیت و افہام و تفہیم کے ذریعے جمہوری اورآزاد افغانستان حاصل کیاجاسکتاہے۔
No comments:
Post a Comment