Thursday, February 21, 2019

کشمیریوں کیخلاف نسل کشی کی مہم


کشمیریوں کیخلاف نسل کشی کی مہم
پلوامہ واقعے کے بعد سے سارے ہندوستان میں کشمیریوں کو بدترین آزمائش کا سامنا ہے۔  مسلم کش فسادات  ہندوستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ان فسادات کا پہلی بار موثر انسداد احمد شاہ ابدالی نے کیا تھا جب مرہٹوں نے ہندوستانی مسلمانو ں کی زندگی حرام کر رکھی تھی۔ظلم و ستم سے تنگ آکر حضرت شاہ ولی اللہ نے افغانستان کے بادشاہ  کو دادرسی کیلئے  خط لکھا اور 1760 کے اختتام  پر احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کا قصد کیا۔ ابدالی نے روانگی سے قبل بلوچ سرداروں کو مرہٹوں کے ظلم و تشدد سے مطلع کیا اور جب  افغان مسلمانوں  کا لشکر جرار   جنوری 1761 میں اٹک پھاٹک پر پہنچا تو بگٹی، مینگل، مری، لاسی، اور جمالیوںسمیت  درجنوں بلوچ قبائل کے مسلح نوجوان  اس لشکر میں شال ہوگئے۔ 14جنوری کو پانی پت (حال ہریانہ) میں مرہٹوں کو شکست دیکر اس لشکر نے مسلمانوں کو  مرہٹو ں سے نجات  دلادی۔
احمد شاہ ابدالی کو لٹیرا کہنے والے دانشوروں کو شائد اس حقیقت کا پتہ نہیں کہ پانی پت  میں  مرہٹوں کے استیصال اور دہلی میں بچے کچھے شرپسندوں کی گوشمالی کے بعد ہندوستان  پر قبضہ کرنے کے بجائے احمد شاہ ابدالی یہ کہہ کر افغانستان واپس چلاگیا کہ 'میں مرشد (شاہ ولی اللہ) کے حکم پر ہندی مسلمانوں کی نصرت کیلئے یہاں آیاتھا۔ مال کی لالچ تھی اور نہ کشور کشائی کا شوق'
احمد شاہ بابا  کے نام سےمشہور زرغون جان  کے اس  فرزندنے   ملک واپس  جاتے ہوئے  غلام و کنیز سمیت سارا مالِ غنیمت  اپنے بلوچ سپاہیوں میں تقسیم کردیا اور بلوچوں کا ظرف کہ انھوں نے سارا  مال مقامی آبادی  کو بخش دیا۔ غلاموں اور کنیزوں کو جبری مسلمان بنانے کے بجائے انھیں نہ صرف آزاد کردیا بلکہ عزت و احترام کے ساتھ ڈیرہ بگٹی، لسبیلہ، خصدار اور دوسرے علاقوں میں رہائش اور سرکاری ملازمتیں عطا کیں۔ان علاقوں میں آج بھی ہندو امن وامان اور عزت و احترام کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
عجیب اتفاق کہ  260 سال بعد مہاراشٹرا کا ایک  اورمرہٹہ  نریندرا مودی کشمیری مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیل رہا ہے۔ لیکن احمد شاہ ابدالی کے فرزندمدد کیلئے آنے سے قاصر ہیں کہ  یہ مردانِ حر  گزشتہ کئی دہائیوں سےغیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف  آزادی اور اپنے دین و ثقافت کے دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ جدوجہد اب فیصلہ کن مرحلے میں ہے۔ایک باروہاں سے غیر ملکی سپاہ  واپس ہوجائے  تو  دورِ جدید کے مرہٹو ں کی گوشمالی کیلئے  غزنی کے غازی  چند ہی دنوں  میں  سرینگر پہنچ سکتے ہیں۔



No comments:

Post a Comment