پلوامہ حملہ!! خدشات اور اندیشے
14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے پلوامہ ضلع
میں ہندوستانی فوج کے قافلے پر مبینہ خودکش حملے کی تفصیلات ایک ہفتہ گزرجانے کے
بعد بھی واضح نہیں اور خود ہندوستان کے عسکری ذرایع سرکاری اعلامئے پر شکوک و
شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ ہندوستان کےنیم
فوجی دستے سنٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF) کے
سربراہ جنرل راجیو رائے بھتنگر نے اخباری کانفرنس میں بتایا کہ CRPFکے 2500 فوجی 75 بسوں
کے ایک بڑے قافلے کی شکل میں سرینگر سے اننت ناگ جانے والی مرکزی شاہراہ پر محوِ
سفر تھے۔ جب یہ قافلہ ضلع پلوامہ کے مضافاتی علاقے اونتی پورہ کے قریب پہنچا تو
دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی قافلے سے ٹکرادی گئی۔ دھماکے سے ایک بس میں آگ
لگ گئی اور اس میں سوار تمام کے تمام سپاہی ہلاک ہوگئے۔ اکثر لاشیں ناقابل شناخت
ہیں۔ جنرل صاحب کے مطبق 43 سپاہی ہلاک ہوگئے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔CRPFکے مطابق حملہ آور کی
شناخت عادل احمد ڈارکے نام سے کرلی گئی ہے۔ قریب ہی کے ایک گاوں کے رہائشی عادل کا
تعلق جیشِ محمد
(JeM)سے بتایا جارہا ہے۔ ملزم کا نام اور دوسری تفصیلات کا
واحد ثبوت ہندوستان کی خفیہ ایجنسی کو موصول ہونے والاجیشِ محمد کا ٹویٹ (Tweet)اور ایک آڈیو پیغام ہے ۔
یہ حملہ اس لحاظ
سے انتہائی کاری وار ہے کہ اس سے پہلے کشمیر میں ہندوستانی فوج کا اتنا بڑا نقصان
کبھی نہیں ہوا۔ستمبر 2016 میں اڑی کے ایک فوجی اڈے پر حملے میں 23 سپاہی مارے گئے
تھے۔ اسوقت بھی ہندوستان نے اسکا الزام جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ پر لگایا تھا۔ اس
واقعے کے بعد بھارت نے Surgical
Strikeکا دعویٰ بھی
کیا لیکن غیر جانبدا عسکری ماہرین نے دہلی کے اس دعویٰ کو شیخی قراردیکر مسترد
کردیا تھا۔
حسبِ توقع حملے کے
ساتھ ہی ہندوستان میں جنگی بخار شدت کو پہنچ گیا۔ابتدائی تحقیقات
سے پہلے ہی ہندوستانی وزیرخارجہ شری ارون جیتلے (Arun
Jattley) نے کہا کہ اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قوموں کی برادری میں پاکستان کو
تنہا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے پاکستان کو پسندیدہ ترین ملکوں یعنی MFNکی فہرست سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان و
پاکستان کی باہمی تجارت کا حجم 2ارب 80 کروڑ ڈالر سالانہ کے قریب ہے۔ چند سال پہلے
تک درآمد وبرآمد کا توازن ہندوستان کے حق میں تھا۔ پاکستان ہندوستان سےسوا دو ارب
ڈالر کا سامان درآمد کرتا تھا جبکہ اسکا برآمدی حجم 60
کروڑ ڈالر سے کم تھا۔ تاہم گزشتہ
دوسالوں سےہندوستان میں پاکستانی سیمنٹ کی مانگ بڑھ جانے کی وجہ سے پاکستان کی
برآمد میں خاصہ اضافہ ہوگیا ہے۔
ہندی وزیرخارجہ نے
اس کاروائی کا الزام آئی ایس آئی پر لگایا۔ انکاکہنا تھا پاک فوج جیش محمد اور
اسکے مبینہ سربراہ مولانا اظہر مسعود کی پشت پناہی کررہی ہے۔ اسی کے ساتھ لائن آف
کنڑول کے دونوں جانب چلنے والی بس کی آمدورفت بھی روک دی گئی اور
دونوں ملکوں نے اپنے سفیروں کو مشاورت کیلئے وطن واپس بلالیا۔
حملے پر اشتعال
انگیز ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نریندرا مودی نے کہا کہ ہندوستان اس
'وحشیانہ' حملے کا بھرپور جواب دے گا اور ذمہ داروں کو اس بھیانک
جرم کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ پاکستان کا نام لئے بغیر مودی جی نے کہا کہ 'اگر
ہمارا ہمسایہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہندوستان کو غیر مستحکم کرسکتا ہے تو یہ اسکی
غلطی ہے'
واقعے کے بعد جموں
کے ہندوعلاقوں میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جواب تک جاری ہے۔ جموں کے
مرکزی بازار میں مسلمانوں کی درجنوں گاڑیاں نذرِ آتش کردی گئیں۔ ہندوستان کے مختلف
شہروں میں رہائش پزیر کشمیری خاص طور سے طلبہ نفرت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ریاست
اترکھنڈ کے صدرمقام ڈیرہ دون میں ہزاروں کشمیری نوجوان زیر تعلیم ہیں۔ وہاں جن
سنگھی نوجوانوں کے ایک مشتعل ہجوم نے ڈیرہ دون کالج کے باہر مظاہرہ کیا۔ ڈنڈے
لہراتے نوجوانوں نے 'غداروں ' کو کچل دو کے نعرے لگائے
اورعمران خان کے تصویریں جلائیں۔ہر جگہ اوباش لڑکےکشمیری طالبات پر آوازے کس رہے ہیں اور باپردہ خواتین شہر میں
بند ہوکر رہ گئی ہیں۔ڈیرہ دون کے مضافاتی علاقے سدھووالا میں ڈنڈوں سے مسلح ہجوم
نے درجنوں کشمیری نوجوانوں کو گھیر کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ بچیوں کے ڈوپٹے
نوچنے اور تیزاب پھینکنے کی اطلاعات بھی ہیں۔کشمیری لڑکیوں کے ہاسٹلوں کو بی جے پی
کے مسلح جوانوں نے گھیر رکھا ہے۔ڈیرہ دون کے علاوہ ہریانہ کے شہر انبالہ اور دہلی
میں بھی کشمیریوں پر حملوں کی اطلاعات ملی ہی۔ دہلی میں کشمیریوں کی دکانوں کو آگ
لگادی گئی۔ مالک مکان کشمیری کرائے داروں کو دوکان اور مکانات خالی کرنے کو کہہ
رہے ہیں۔ سارے ہندوستان میں کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔کشمیری رہنما سید
علی گیلانی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بی جے پی 1984 کے سکھ قتل ِ عا م کو دہرانا چاہ
رہی ہے جب 31 اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سارے ہندوستان میں سکھ کش
فسادات پھوٹ پڑے اور 4 دن جاری رہنے والے ہنگاموں میں 17000 بے
گناہ سکھ ذبح کردئے گئے تھے۔ سکھوں کے مالی نقصانات کا تخمیہ کھربوں میں تھا۔اس
کشیدگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت اور حکمراں جماعت ان
بلوائیوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔ قومی سلامتی کیلئے ہندوستانی وزیراعظم کے مشیر
اجیت دوال کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف آگ بھڑ کا رہے ہیں۔ انھوں نے خطرہ ظاہر
کیا کہ ہندوستان کے مدرسوں میں خود کش بمبار تیار کئے جارہے ہیں ۔ہندوستانی میٖڈیا
نے سارے ملک میں خوفناک جنگی بخار پیدا کردیا ہے اور کئی جگہ مظاہرین نے مئی کے
عام انتخابات کیلئے ہونے والے جلسے درہم برہم کردئے۔ انتہا پسند بجرنگ دل کے
کارکنان نعرے لگارہے ہیں کہ 'پہلے پاکستان کو آگ لگاو پھر چناو'۔ بجرنگ دل نے اگلے
ہفتے سارے ہندوستان میں 'دھرتی کو کشمیر یوں سے پاک کرو' ریلی نکالنے کا اعلان کیا
ہے ۔
یہ تو ہے اس واقعے
کی تفصیل اور اس پر نظر آنے والا ردعمل۔ لیکن اکثر غیر جانبدار عسکری اور سیاسی
ماہرین ہندستانی حکومت کے موقف سے متفق نہیں اور سرکاری اعلامئے میں واضح سقم نظر
آرہاہے۔ یہ بات اخباری کانفرنس کے دوران ہندوستانی
وزیرخارجہ سے بھی پوچھی گئی کہ 75 سے زیادہ فوجی بسوں کے طویل قافلے کو حفاظتی
گاڑیوں کے بغیر شورش زدہ علاقے میں کھلی شاہراہ سے گزرنے کی اجازت کس نے دی؟
شاہراہ سے ملنے والی سڑکو ں پر بھی عام گاڑیوں کو روکنے کا کوئی انتظام نہیں تھا
جسکی وجہ سے دھماکہ خیز مواد سے لدی گاڑی کسی روک ٹوک کے بغیر شاہراہ پر آگئی۔ اس
سوال کا جواب دینے کے بجائے بھارتی وزیرخارجہ مشتعل ہوگئے اور میز پر مکہ مارتے
ہوئے بولے 'کون کہتا ہے کہ کشمیر شورش زدہ ہے۔گنتی کے چند دہشت گرد ہمیں یرغمال
نہیں بناسکتے'
اسی طرح مبینہ
ملزم کا معاملہ بھی مشکوک ہے۔ پولیس ذرایع کے مطابق 20 سالہ عادل ڈار کو گزشتہ سال
ستمبر میں گرفتار کیا گیا تھا اورا سکی رہائی کا کوئی ذکر ریکارڈ پر نہیں۔ گرفتاری
کے وقت عادل کا تعلق حزب المجاہدین سے بتایا گیا تھا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ اسے
جیشِ محمد نے تربیت دی تھی۔عادل کے باپ نے بھی کہا کہ دوسال پہلے اسکے بیٹے پر
بھارتی فوج نے شدید تشدد کیا تھ جذبہ انتقام نے عادل کو انتہا پسندی کی طرف مائل
کردیا اور وقوعہ کے وقت یہ نوجوان 'دہشت
گردی' کے الزام میں بند تھا۔ سب سے مضحکہ خیز ہندوستانی خفیہ اداروں کا یہ انکشاف
ہے کہ حملے کے وقت عادل کی فون پر جو گفتگو ریکارڈ کی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ
جیش کا سرغنہ غازی عبدالرشید اسکو پاکستان سے براہ راست ہدائت دےرہا تھا۔ یہ تو آپ
کو معلوم ہی ہے کہ غازی صاحب جولائی 2007 میں لال مسجد حملے میں جاں بحق ہوچکے
ہیں۔
حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارت کے دفاعی تجزیہ
نگار اور فوج کے سابق افسر لیفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہودا نے کہاکہ بھارتی فوج کے مطابق
حملے میں 750 پونڈ بارودی مواد استعمال ہوا اور اتنی بڑی مقدار میں بارود اور
دھماکہ خیز مواد سرحد پار سے لانا ممکن ہی نہیں۔اسی طرح وادی کے سابق کٹھ پتلی
وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے ایک انٹرویومیں کہا کہ اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان
پر ڈالنا درست نہیں کہ یہ کاروائی اس بچے نے کی ہے جو بھارتی فوج کے شرمناک سلوک
پر مشتعل تھا۔
یہ واقعہ ایسے وقت
پیش آیا ہے جب دو ماہ بعد ہندوستان میں انتخابات ہونے ہیں اور آجکل وہاں کے بازارِ
سیاست میں پاکستان اور اسلام دشمنی کے چورن کی زبردست مانگ ہے۔ تمام سیاسی ماہرین
کا خیال ہے کہ کڑیل جوانوں کی 40 سے زیادہ لاشیں حکمران جماعت بی جے
پی کے لئے ووٹوں کی موسلا دھاربارش سے کم
نہیں۔ اسی عوامی دباو کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی کے ساتھ
اب کانگریس بھی جنگی بخار میں مبتلا نظر آرہی ہے۔ پیر کی صبح جب پنجاب اسمبلی میں نوجوت
سنگھ سندھو نے سرکاری موقف کو تنقید کا نشانہ نبایا تو ان پر حملے میں کانگریس پیش
پیش تھی۔ تلخی اسقدر زیادہ تھی کہ اسپیکر نے ممکنہ ہاتھاپائی کے خوف سے گارڈز کو ایوان میں طلب کرلیا۔
ہندوستان کے
پارلیمانی انتخابات کے علاوہ پلوامہ حملے کا تجزیہ کرتے ہوئے امریکہ طالبان
مذاکرات کے تناظر کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی
کیلئے صدر ٹرمپ پرعزم بلکہ بے قرار نظر آرہے ہیں۔ اپنی ہرگفتگو اور تقریر میں وہ
اسے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کہہ رہے ہیں جس میں امریکی ٹیکس دہندگان کی خون
پسینے کی کمانی پانی کی طرح بہہ رہی ہے لیکن اس مسئلے پر امریکہ میں انکی مخالفت شدید
ہوتی جارہی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگارو ں
کا خیال ہے کہ ریپبلکن پارٹی اور قدامت پسند حلقوں میں بھی صدر کو تنہائی کا سامنا
ہے۔ وفاقی تحقیاتی ادارہ(FBI)، سی آئی اے کی ڈائریکٹر، سینیٹ کے قائدایوان اور کانگریس میں صدر
ٹرمپ کے تقریباً سارے قریبی ساتھی افغانستان سے فوری انخلا کے خلاف ہیں اور ان سب
کا خیال ہے کہ طالبان اور کابل حکومت کے
درمیان معاہدے کے بغیر افغانستان سے واپسی امریکہ کی شکست سمجھا جائیگا۔
حکومت کے اس جنگجو
دھڑے کی قیادت قومی سلامتی کیلئے صدر کے مشیر جان بولٹن کر رہے ہیں۔ 70 برس کے جان بولٹن مسلم مخالف قدامت پسند بلکہ امریکہ میں
قدامت پسندوں کے سرخیل ہیں۔ انکے خیال میں امریکی 'اقدار' ہی اصل جمہوریت ہے اور
دنیا بھر میں اسکی بالادستی کیلئے سیاسی، معاشی اور عسکری قوت کا استعمال بالکل
درست ہے۔ سرکش حکومتوں کی بزورِ طاقت تبدیلی کا تصور جانب بولٹن ہی نے پہلی بار
عوامی سطح پر پیش کیا جسکے لئے Regime Changeکی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جناب بولٹن نے ایرانی حکومت،
شمالی کوریا کی کمیونسٹ پارٹی، صدر صدام ، کرنل قذافی اور شام میں Regime Change کی ضرورت پر زور دیا تھا اور وہ اب بھی اپنی بات پر قائم
ہیں۔ مسٹر بولٹن داعش کو ISISپکارنے کے بجائے 'خلافت' کہتے ہیں اور غالباً انھیں کے
مشورے پر ان صدر ٹرمپ، نائب صدر مائک پینس اور دوسرے امریکی زعما بھی اپنی فتح کا
ذکر کرتے ہوئے 'اسلامی خلافت' کو تباہ کردینے کی نوید سناتے ہیں۔
مسٹر بولٹن افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے سخت خلاف ہیں۔ بلکہ وہ
افغانستان میں بگرام اور دوسرے اڈوں کومزید بہتر و موثر بنانے کے حق میں ہیں۔ انکا
خیال ہے کہ اٖفغانستان کے ذریعے چین اور روس پر گہری نظررکھی جاسکتی ہے۔ مسٹر
بولٹن پاکستان کے جوہری پروگرام کے سخت مخالف ہیں اور انھیں ایک انجانا سا ڈر ہے
کہ کبھی نہ کبھی یہ طاقت امریکی مفادات یا اسکے حلیفوں کے خلاف استعمال ہوگی۔ وہ
بھارت کو امریکہ کا فطری اتحادی سمجھتے ہیں۔ انکا خیال ہے دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت کی حمائت دنیا کی سب طاقتور جمہوریت کا فرض ہے۔
جان بولٹن چونکہ ایک نظریاتی آدمی ہیں اسلئے وہ افغانستان میں طالبان کی متوقع
کامیابی کو جہادی قوتوں کی فتح سمجھتے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ امریکی فوج کی واپسی
اور امارات کے قیام کے بعد یہ ملا اپنا سیاسی نظریہ برآمد بھی کرینگے۔ اسی بناپر
جناب بولٹن افغانستان میں ہندوستان کا موثر کردار چاہتے ہیں تاکہ طالبان کو
کمزوریا کم ازکم انکے فلسفہ جہاد کو افغانستان تک محدود رکھا جاسکے۔
امریکہ کے سیاسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی حمائت کے بغیر
افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں اور اٖفغانستان میں طالبان کی حکومت قائم
ہوجانے کی صورت میں ملاوں پر نظر بھی پاکستان سے اور پاکستان کے ذریعے ہی رکھی
جاسکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کا بھی یہی خیال ہے جسکی وجہ سے پاکستان کیلئے انکے لہجے اور
روئے کی تلخی ختم ہوگئی ہے بلکہ وہ اب پاکستان کی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
جناب بولٹن کو یہ صورتحال پسند نہیں اور وہ پاکستان سے دوری بلکہ کشیدگی
برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کابل کے صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ 18 فروری کو اسلام
آباد میں طالبان امریکہ مذاکرات کی منسوخی میں بھی انکا ہاتھ ہے۔اگر طالبان مذاکرات
کیلئےاسلام آباد آتے تو انکی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات متوقع تھی۔ یہ مذاکرات
اسلئے منسوخ ہوئے کہ افغان نمائندے ابھی تک اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست پر
ہیں جنکی آزادانہ نقل و حرکت ممنوع ہے۔ مزے کی بات کہ چند ہفتہ پہلے یہ سار ے ملا
ماسکو گئے تھے لیکن اس بار اقوام متحدہ نے ان لوگوں پر پابندیوں کے اطلاق کو سخت
کردیا جسجے نتیجے میں پاکستانی حکومت نے انھیں ویزوں کا اجرا روکدیا اور مذاکرات
ملتوی کردئے گئے۔
پلوامہ حملے کے بعد جناب بولٹن کے مشورے پر امریکی حکومت نے بھارتی موقف کو
درست مانتے ہوئے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور ابتدائی تحقیقات سے بھی پہلے وہائٹ ہاوس نے اپنے ایک بیان میں حملے کی مذمت کرتے
ہوئے اسلام آباد پر زور دیاکہ وہ فوری طور پر ملک میں قائم دہشت گردوں کے ٹھکانوں
اور ان 'وحشیوں' کی پشت پناہی ختم کردے۔ ترجمان نے کہا کہ اس حملے سے امریکہ کا
دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم مزید مستحکم ہوا ہے۔
اسی کے ساتھ جان بولٹن نے اپنے ہندی ہم منصب اجیت ادوال کو فون کیا
اور گفتگو کے بعد بھارتی وزرت خارجہ کے ایک اعلامئے میں کہا گیا کہ جان بولتں نے
یقین دلایا کہ امریکہ ملک کو محفوظ بنانے اور اپنے تحٖفظ یا Self Defenseکیلئے ہندوستان کی محدود عسکری کاروائی (Surgical Strike) کو حق بجانب سمجھتا
ہے۔ اعلامئے میں مزید کہا گیا کہ دونوں رہنماوں میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا گیاکہ
پاکستان کو فوری طور پر جیشِ محمد کی پشت پناہی بند کردینی چاہئے۔ قومی سلامتی
کیلئےامریکہ اور ہندوستان کے مشیر پاکستان کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے تحت طرزعمل
کیلئے جوابدہ سمجھتے ہیں۔
وقت ہی کی ضمن میں ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ FATFانھیں دنوں پاکستان کے بینکنگ سسٹم اور ملک کے مالیاتی نظام
کا تنقیدی جائزہ بھی لے رہی ہے۔ اسکا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پاکستان نے FATFکی تمام سفارشات کو اپنے نظام کا حصہ بنالیا ہے اور اب ایسا
کوئی چورراستہ موجود نہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسند عناصردہشت گردوں اور
کالعدم تنظیموں کو مالی مدد فراہم کرسکیں۔پلوامہ حملے میں اگر 'بیرونی ہاتھ' ثابت
ہوجاے تو اس سے FATFمیں پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کو اس موقف کو تقویت ملے گی کہ اسلام
آباد دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی اور انھیں مالی امداد فراہم کررہا ہے۔
فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان کا ردعمل جلسے جلوس،کشمیریوں سے
بدسلوکی، وادی میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے تشدد میں اضافے اور پاکستان کو
تنہا کرنے کی سفارتی کوششوں تک ہی محدود رہیگا یا کسی قسم کی عسکری مہم جوئی کا بھی امکان ہے۔ امریکہ کی
جانب سے مکمل پشت پناہی کی بنا پر 'دہشت گردوں' کاگرم تعقب (Hot Pursuit) خارج ازامکان نہیں۔ اڑی حملے کے بعد بھی
ہندوستان میں ایسا ہی جنون دیکھا گیا لیکن معاملہ سرحدی خلاف وزری، مزہ چکھانے کی
دھمکی اور Surgical Strikeکے غیر مصدقہ دعوے سے آگے نہ بڑھا۔اتفاق سے جب پلوامہ کا واقعہ پیش آیا اسکے
دو ہی دن بعد سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان تشریف لائے۔ 18 فروری کو
اسلام آباد میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیرخارجہ عدل الجبیر نے
انکشاف کیا کہ ولی عہد نے پلوامہ واقعے کے بعد مشورے کیلئے دہلی میں سعودی سفیر
کوریاض طلب کرلیا ہے۔ سعودی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاک ہند کشیدگی پر انکے ملک
کو سخت تشویش ہے اور ہم اس معاملے پر دونوں ملکوں سے رابطے میں ہیں۔پاکستان سے
ریاض واپسی کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان
دو روزہ دورے پر 19 فروری کو دہلی
پہنچ رہے ہیں۔ہندوستان سعودی تیل کا بڑا خریدار ہے اور اس دورے میں 45 ارب ڈالر کے
معاہدے متوقع ہیں۔ جبکہ پاکستان میں سعودی عرب پہلے ہی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
کرچکا ہے جنکی مجموعی مالیت 20 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان دو ملکوں کے درمیان
کشیدگی سعودی عرب کے مفاد میں نہیں جہاں اگلے چند برسوں میں سعودی عرب کی سرمایہ
کاری، اثاثہ جات اور تجارت کا مجموعی حجم 75 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے ہندوستان
میں دوسری اور باتوں کے علاوہ محمد بن
سلمان پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے پر بھی گفتگو کرینگے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ
سعودی شہزادے کی جانب سے تنازعات کو بات چت کے ذریعے حل کرنے کی تجویز پر مودی جی
کارد عمل کیا ہوگا لیکن اس دورے کی بنا پر بھارت کی جانب سےجارحانہ فوجی کاروائی کا
خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔ اسلئے کہ دہلی کی توجہ شہزادے کیلئے حفاظتی انتظامات،
تجارتی معاہدوں اور سعودی عرب سے اقتصادی تعاون کی طرف ہے۔ دیکھنا ہے کہ محمد بن
سلمان کی واپسی کے بعد ہندوستان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 22 فروری 2019
No comments:
Post a Comment