Monday, February 25, 2019

دفعہ 35-Aکی ممکنہ منسوخی۔ کشمیرکو فلسطین بنانے کی کوشش


دفعہ  35-Aکی ممکنہ منسوخی۔ کشمیرکو فلسطین بنانے کی کوشش
پلوامہ حملے کے بعد ہندوستان میں عوامی ردعمل سے فائد اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے بھارتی ائین کے دفعہ 35 اے کی منسوخی کا کام شروع کردیا ہے۔  اسکے پس منظر پر چند سطور۔ طوالت پر معذرت لیکن اختصار ممکن  نہیں:
جیسا کہ آپکو معلوم ہے انگریز بہادر نے ہندوستان پر قبضے کے بعد اسکے اکثر علاقوں کو تو براہ راست تاجِ برطانیہ کا حصہ بنالیا تھا لیکن کچھ وفادار راجوں مہاراجوں کے زیر نگیں ریاستوں کو سلطنت برطانیہ کے باجگزارعلاقے کے طور پر خودمختار ریاست رہنے دیا گیا، ان ریاستوں کو Princely State کہا جاتا تھا۔ جونا گڑھ اور جموں و کشمیر ایسی ہی ریاستیں تھیں۔ جوناگڑھ کے راجہ مسلمان تھے جبکہ جموں و کشمیر پر ہندو ڈوگروں کی حکمرانی تھی۔جب تقسیم ہند کے وقت رائے شماری کا مرحلہ آیا تو لندن سرکار  نے  Princelyریاستوں میں رائے شماری کے بجائے ہندوستان، پاکستان  سے الحاق یا آزاد رہنے کا فیصلہ وہاں کے راجوں کو سونپ دیا۔ جونا گڑھ کے راجہ اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے چاہتے تھے تاہم انکا یہ دعویٰ اس بنیادر پر مسترد کردیاگیا کہ رعایا کی اکثریت ہندو ہے جو ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن اس اصول کا اطلاق جموں و کشمیر پر نہیں ہوا جہاں کے عوام کی غالب اکثریت مسلمان ہے اور کشمیری اپنی ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ کشمیری راجہ نے اپنی رعایا کا موڈ دیکھتے ہوئے ہندوستان و پاکستان کا حصہ بننے کے بجائے ایک آزاد و خود مختار ریاست کے طورپر اپنا وجود برقرار رکھنے کا اعلان کیا لیکن چند ہی ماہ بعد 'پٹھانوں کے حملے' کا ہوا کھڑا کرکے ہندوستان نے وہاں اپنی فوج اتار دی اور اکتوبر 1947 تک جموں و کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ مکمل ہوگیا۔
سقوط کشمیر میں بھی اپنوں کی غداری کو بڑا دخل تھا۔ ہندوستانی فوج کی نقل و حرکت کو دیکھتے ہوئے قائداعظم نے پاکستانی فوج کو جوابی کاروائی کا حکم دیا لیکن اسوقت کے فوجی سربراہ جنرل گریسی نے گورنر جنرل کا حکم ماننے سے صاف انکار کردیا اور سر ظفراللہ خان نے  بھی جو اسوقت قائد کے مشیر تھے فوجی پیش قدمی کی مخالفت کی۔ سر ظفراللہ نے قائداعظم کو یقین دلایا کہ پاکستان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے ہم اقوام متحدہ کے ذریعے ہندوستان کو فوجی انخلا پر مجبور کرسکتے ہیں۔ چنانچہ بھارتی فوج نے کشمیر پر قبضہ کرلیا اور وادی عملاً ہندوستان کا حصہ بن گئی۔ اس دورا ن محدود پیمانے پر پاک بھارت جنگ بھی ہوئی۔
قبضہ مکمل ہوتےہی جنوری 1948 میں ہندوستان کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ لے گیا اور وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی تجویز پیش کی۔ اسوقت تک سر ظفراللہ پاکستان کے وزیرخارجہ بن چکے تھے جنھوں نے بھارت کے عزم کو سراہا اور اس معاملے پر 'مل کر'کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چینی ریپبلک نے ایک قرارداد ہیش کی۔ اس وقت عوامی جمہوریہ چین وجود میں نہیں آیا تھا اور فارموسا ہی چین کہلاتا تا تھا۔ 21 اپریل 1948 کو یہ تحریک منظور کرلی گئی جو  قرارداد نمبر 47 کے نام سے مشہور ہے۔ قرارداد 47کا سب سے بڑا سقم  یہ ہے کہ اسے اقوام متحدہ کے چارٹر VIکے تحت پیش کیا گیا۔ چارٹر VIتنازعے کے پرامن حل کیلئے اقوام متحدہ کی درخواست کی حیثیت رکھتی ہے اور عالمی ادارہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے طاقت کے استعمال کا پابند نہیں۔اسکے مقابلے میں چارٹر VIIکے تحت منظور ہونے والی قرارداد فوری طور پر اقوام متحدہ کی فوج یا ملٹری اسٹاف کمیٹی  (MSC) کے سپرد کردی جاتی ہے اور MSCکا سربراہ قرارداد پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کا پابند ہے۔ 9/11 کے بعد افغانستان کے خلاف قرارداد چارٹر VIIکے تحت پیش کی گئی تھی جسکی رو سے اقوام متحدہ کے تمام ارکان فوجی قوت کے ذریعے افغانستان کو قائل کرنے کے پابند تھے۔سرظفراللہ نے قرارداد پر رائے شماری کے دوران اسے چارٹر VII کے تحت منظور کرانے پر زور نہیں دیا۔ ان جیسے مستند ماہرِ قانون اور  جہاندیدہ سفارت کار سے اتنی غلطی کی توقع نہیں تھی۔
کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ نے جو قرارداد منظور کی اس میں کشمیر کے حل کیلئے 3 مراحل تجویز کئے گئے تھے۔ یعنی پہلے کشمیر سے 'پاکستانی قبائلیوں' کا انخلا، دوسرے مرحلے میں وادی سے ہندوستانی فوج کی واپسی جسکے بعد جموں و کشمیر میں سرگرم تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک نگراں حکومت کا قیام جو ریفرنڈم کے ذریعے یہ معلوم کریگی کہ کشمیری پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
اس قرارداد کی تشریح ہندوستان نے کچھ انداز میں کی کہ پاکستان کی دراندازی کا الزام لگاکر مزید فوجی دستے وادی  میں بھیج دئے اور عبوری حکومت کا ڈھونگ رچا کر ریاستی اسمبلی کے نام سے کٹھ پتلی پارلیمان قائم کردی گئی۔ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان سیاسی بحران میں مبتلا ہوگیا جسکی وجہ سے سفارتی سطح پر کشمیریوں کو مقدمہ لڑنے والا کوئی نہ تھا لیکن کشمیریوں کی پرامن مزاحمت جاری رہی۔ قیام ہند وپاکستان کے وقت کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے جس دستاویزِ وابستگی یا Instrument of Accessionپر دستخط کئے تھے اسکے مطابق کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور  ریاست پر ہندوستان کے قوانین کا اطلاق نہ ہوتا تھا۔اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد پر کا تاثر دینے کیلئے دستاویزِ وابستگی کے حوالے سے  ایک صدارتی حکم کے ذریعے ہندوستانی آئین کے باب 21 میں دفعہ 370 کا اندارج ہوا جسکے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت اور اسکی اسمبلی کو مکمل خودمختاری عطا کی گئی۔
اسی کے ساتھ جموں کے  پنڈتوں نے سارے دیش کے ہندووں کوکشمیر آنے کی دعوت دی تاکہ ریفرنڈم سے پہلے یہاں ہندووں کے تناسب کو بڑھایا جاسکے۔ اس مقصد کیلئے باہر سے کشمیر آنے والوں کو ریاستی ملازمتیں اور سیاحتی صنعت میں سرمایہ کاری کے لئے پرکشش مراعات دی گئیں۔ان اقدامات پر کشمیریوں کی جانب سے شدید مزاحمت ہوئی اور کئی جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوستانی فوج نے کشمیریوں کی مزاحمت کو کچلنے کیلئے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور ہزاروں کشمیری مارے گئے۔ دوسری طرف 'شرپسندوں' کی سرکوبی کے نام پر مزید فوجی دستے یہاں تعینات کردئے گئے۔اسی کے ساتھ وزیراعظم نہرو  اور شیخ عبداللہ نے سیاسی بھاشن کے ذریعے کشمیریوں کو منانے کی کوشش کی۔ نہرو نے سرینگر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  ہمیں اپنے 'کشمیری بھائیوں' کے تحفظات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ دورِ غلامی میں انگریز  جائیدادیں خرید کر وادی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اسلئے مہاراجہ نے باہر سے آنے والوں پر پابندی لگادی تھی لیکن اب  ہمارا دیس آزاد ہوگیا ہے اور غاصب انگریزوں کے آنے کا کوئی خطرہ نہیں لہٰذا کشمیر آنے اور جانیوالوں پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ شیخ عبداللہ کا کہنا تھا کہ وادی میں سرمایہ کاری آنے سے روزگار کے بےشمار مواقع پیدا ہونگے۔
بہیمانہ تشدد اور روشن مستقبل کا جھانسہ کشمیریوں کو متاثر نہ کرسکا اور کشمیر کی شناخت برقراررکھنے کیلئے تحریک جاری رہی بلکہ اس میں مزید شدت آگئی جسکی وجہ سے پنڈتوں نے کشمیر چلو کی تحریک معطل کردی۔ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے وزیراعظم نہرو کی سفارش پر ہندستان کے صدر راجندرا پرشاد نے 14 مئی 1954 کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ہندوستانی آئین کے دفعہ 370 میں ترمیم کرکے ایک ذیلی شق دفعہ 35 اے کا اندراج کا حکم  دیا جسکے تحت ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی  حیثیت کو مزید مستحکم کردیاگیا۔ دفعہ 35اے کی رو سے صرف وہی لوگ ریاست کشمیر میں:
·        سرکاری ملازمت
·        غیر منقولہ جائداد کی خرید و فروخت
·        مستقل رہائش
·        ریاستی اسمبلیوں کی رکنیت اور
·        تعلیمی وظائف و گرانٹ
کے حقدار ٹہرے جنکی کئی نسلیں یہاں آباد ہیں یا یوں کہئے کہ صرف جدی پشتی کشمیری ہی ریاست کے قانونی  شہری ہیں۔اس ترمیم کے ذریعے 'کشمیر کشمیریوں کا' مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وادی کی مذہبی، لسانی و عمرانی شناخت کو محفوظ کردیا گیا۔
یہ آئینی بندوبست نسل پرست ہندووں کا پسند نہ آیا اور پنڈتوں نے احتجاج شروع کردیا جس میں بی جے پی کے دور میں شدت آگئی۔ وزیراعظم بننے سے چند ہفتہ پہلے  مہاراشٹر میں اپنی جماعت کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے نہرو خاندان پر ملک سے غداری کی جو فردجرم عائد کی اس میں سرِ فہرست35 اے ترمیم تھی۔ بی جے پی کے برسراقتدار آتے ہی اس ترمیم کو منسوخ کرنے کی تحریک نے زور پکڑ لیا۔ انتہاپسندوں کا کہنا ہے کہ ترمیم لوک سبھا (قومی اسمبلی) سے منظور نہیں ہوئی بلکہ محض ایک صدارتی فرمان کے ذریعے آئین کا حصہ بنائی گئی ہے اسلئے اسے صدارتی فرمان کے ذریعے منسوخ کرنا مشکل نہیں اور اس ضمن میں کئی بار وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ تاہم بی جے پی کی حکومت نے اب تک نہ تو مسئلے کو لوک سبھا میں اٹھایا اور نہ ہی وزیراعظم نے اس نوعیت کی کوئی سفارش ہندوستانی صدر کو بھیجی۔
 اگست کے آغاز پر ایک غیر معروف بھارتی شہری نے سپریم کورٹ کو دہائی دی کہ دفعہ 35 اے ایک امتیازی قانون ہے۔ درخواست میں کہا گیاہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ اور یوپی، بہار و آسام کی طرح ہندوستان کی ایک ریاست ہےاور جب کسی بھی ریاست میں رہائش اختیار کرنے اور جائیداد خریدنے پر کوئی پابندی نہیں تو کشمیر کے دروازے عام ہندوستانیوں پر کیوں بند ہیں۔اب تک سپریم کورٹ نے اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ نہیں کیا اور اس سلسلے میں 31 اگست کو ہونے والی سماعت ہندوستانی اٹارنی جنرل وینو گوپال کی درخواست پر 4 مہینے کیلئے موخر کردی گئی تھی ۔ اب کل سے اسکی دوبارہ سماعت کا آغاز ہورہا ہے۔  لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آئینی درخواست نریندرمودی کی ایما پر دائر کی گئی ہے۔ بھارتی آئین کے تحت عدالتیں دستور سے متصادم صدارتی فرمان کو منسوخ کرسکتی ہیں اور اگر ہندوستانی عدالتِ عظمیٰ نے ترمیم کو منسوخ کردیا تو مسلم دشمنی کا الزام سر پر آئے بغیر مودی جی کی  دلی مراد پوری ہوجائیگی ۔

No comments:

Post a Comment