افغانستان کا امن ۔۔۔ امریکی انا و قومی تکبر کی نذر؟؟؟
نائن
الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مرحوم قاضی حسین احمد نے کہا
تھا کہ 'روس نے بازی ہاری ہے۔ اب امریکہ کی باری ہے'۔ بعد میں مردِ قلندر کے ان الفاظ نے ایک قومی نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ ایک
عرصے تک پاکستان کے دانشوروں نے اسے دیوانے کی بڑ اور شیخ چلی کا خواب قراردیا۔
سابق رکنِ جماعت مرحوم ارشاد حقانی سے لے کر سیکیولر نذیر ناجی اور انقلابی حسن
نثار تک سب کا خیال تھا کہ 'امیدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے ملا کو'۔ یہ جاہل
ملا وصل حور میں اپنی جانوں سے جائینگے اور بس۔ نذیر ناجی تو بہت حقارت کیساتھ طنز
فرماتے تھے کہ توڑے دار بندوقوں سے یہ مولوی F-16 اور ان ڈرون کو شکست دینے چلے ہیں جوانکے دلوں کی دھڑکن کو بھی
ٹھیک ٹھیک شمار کرلیتے ہیں۔
17 سال گزرنے کے بعد قاضی صاحب کی بات تو درست ثابت ہوئی
مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کی باری
سے پہلے کہیں صدرِ امریکہ کی باری نہ آجائے۔ جی ہاں صدر ٹرمپ کی جانب سے انخلا کے
آمادگی کے ساتھ ہی انکے خلاف امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ متحد و منظم ہوگئی ہے۔
جو لوگ صدر ٹرمپ کے طرز سیاست پر نظر رکھتے ہیں انھیں
اندازہ ہوگا کہ نسلی تعصب، مسلمان مخالف جذبات، رنگدار اور غیر ملک نژاد امریکیوں
کے بارے میں منفی روئے سے قطع نظر صدر ڈانلڈ ٹرمپ سرکاری خرچ کے معاملے میں بے حد
حساس ہیں۔ 20 جنوری 2017 کو امریکی صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر
میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ امریکیوں کے خون پسینے کی کمائی کو شوق کشور کشائی
میں ضایع نہیں کرینگے۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ وہ امریکہ کے صدر ہیں جسکی بنیادی
ذمہ داری امریکیوں کیلئے خوشی اور خوشحالی کو یقینی بنانا ہے۔
سرکاری اخراجات کے معاملے میں انھوں نے اپنے وزرا پر بھی
گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ اپنے قریب ترین
ساتھی، انتخابی مہم کے بڑے معاون اور وزیرِصحت
و عوامی خدمات ڈاکٹر ٹام پرائس (Tom Price)کو انھوں نے صرف اس بات پر برطرف کردیا کہ وہ سرکاری دوروں
کیلئے عام تجارتی پروازوں (Commercial
Flights)کے بجائے چارٹر طیارے استعمال کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ کا موقف
تھا کہ یہ قومی دولت کازیا ں ہے۔ مزے کی بات کہ ٹام پرائس صاحب کو پروانہ برطرفی
تھمانے سے پہلے چارٹر اور کمرشل فلائٹ کے خرچ کا فرق بھی ان سے وصول کرکے قومی خزانے
میں جمع کرaدیا گیا۔ اسی کے ساتھ صدر کی
ہدائت پر وہائٹ ہاوس کے چیف آف اسٹاف نے تمام وزرا کو ایک تنبیہی خط لکھا جس میں
انھیں باور کرایا گیا کہ امریکی شہری ہفتے میں کم از کم 40 گھنٹے سخت محنت مشقت کے
بعد جو کماتے ہیں اسکاایک حصہ ٹیکس کی شکل میں کاٹ لیاجاتا ہے۔ امریکی عوام اپنے خون
پسینے کی کمائی سے حکومت کو پال رہے ہیں لہٰذا ایک ایک پائی خرچ کرنے سے پہلے صدر
سمیت حکومت کے ہر ذمہ دار کویہ یقین کرلینا چاہئے کہ اسمیں فضول خرچی کا کوئی
شائبہ تو نہیں؟
بین الاقوامی تعلقات کے باب میں بھی 'سب سے پہلے امریکہ' امریکی ٹرمپ کی بنیادی ترجیح ہے
چنانچہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی نیٹو (NATO) اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ ادارے کے اخراجات دیانت داری
سے اداکریں۔ انکے حکم پر وزارت خارجہ نے نیٹو کے ہر رکن کی جانب سے واجبات کی
ادائیگی کا یک جائزہ پیش کیا اور نادہندگان کو خطوط لکھے۔ نیٹو سربراہ ملاقاتوں
میں بھی وہ نیٹو واجبات کی ادائیگی پر زور دیتے ہیں۔انکا یہی رویہ انکے خلیجی اور
ایشائی اتحادیوں کے ساتھ بھی ہے۔
صدر ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہیں۔ وہ خرچ پر نظر رکھنے کے
ساتھ اسے کم اور غیر ضروری اخراجات ختم کرنے کے قائل ہیں۔ انھوں نے اقتدار میں آتے
ہی پینٹاگون (وزارت دفاع) سے دریافت کیا کہ:
·
جنوبی کوریا میں امریکی فوج کی تعیناتی اور فوجی مشقوں پر کتنی رقم خرچ ہوتی
ہے
·
شام اور عراق میں موجود امریکی فوج کا مجموعی خرچ کتناہے
·
خلیج عرب میں امریکی بحریہ کے گشت پر کتنی لاگت آتی ہے
·
اٖفغانستان پر قبضے کی امریکی عوام کو کیا قیمت دینی پڑ رہی ہے۔
جب یہ اخراجات سامنے آئے تو خود پینٹا گون کو بھی حیرت
ہوئی۔ اٖفغانستان میں امریکی فوج کے قیام کا تخمینہ 75 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے 2017 کے وسط سے کوریاکا جوہری تنازعہ شمالی
کوریا پر پابندیوں اور بات چیت کے ذریعے نبٹانے، شام میں داعش کے خلاف سخت کاروائی
کے بعد فوج واپس بلانے اور افغانستان پر فیصلہ کن وار کرنے کا فیصلہ کیا۔ صدر ٹرمپ
کی خوش نصیبی کہ شمالی کوریا پر پابندی کی چین نے بھی بھرپور حمائت کی بلکہ یوں
کہئے کہ تجارتی مفادات پر بیجنگ نے شمالی کوریا کی دوستی کو قربان کردیا۔ چین کی
بیوفائی سے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ انھ کے پاس امریکہ سے براہ راست بات چیت
کے علاوہ کوئی راستہ نہ رہا اور دونوں رہنماوں کے درمیان گزشتہ برس 12 جون کو براہ
راست ملاقات نے اس مسئلے کے پرامن حل کی راہ ہموار کردی۔ کشیدگی کم ہوتے ہی صدر
ٹرمپ نے جزیرہ نمائے کوریا میں فوج مشقیں ختم کرنے کا اعلان کردیا اور صاٖف صاف
کہاکہ فوجی مشق کے ذریعے شمالی کوریا کو مرعوب کرنا امریکہ کی نہیں بلکہ جنوبی
کوریا کی ضرورت ہے اور اس کام کیلئے وہ امریکی ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالرخرچ
نہیں کرسکتے۔
اٖفغانستان کے معاملے میں صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں سے کہا
کہ اگر ایک ڈیڑھ سال میں ملاوں کو کچل کر فیصلہ کن فتح حاصل کی جاسکتی ہے تو ٹھیک
ورنہ افغانستان سے باوقار واپسی ہی مناسب ہے کہ بے مقصد پڑاو کیلے امریکی ٹیکس
دہندگان پر75 ارب ڈالر کا بوجھ انکے لئے قابل قبول نہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا فتحِ
افغانستان کے نئے منصوبےکی تدوین و تصنیف بھی انھیں سورماوں کو سونپی گئی جنکی پالیسیوں اور طرزِ عمل نے
افغانستان اور وہاں تعینات امریکی فوج کو
اس حال میں پہنچایا ہے۔ یعنی وزیرفاع جنرل میٹس، قومی سلامتی کے مشیر
ڈاکٹر جنرل مک ماسٹر، وہائٹ ہاوس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی، سابق مشیرِ
سلامتی جنرل مائیکل فلن، سی آئی اے کے سابق ڈی جی جنرل ڈیوڈ
پیٹریاس وغیرہ۔ جماعتی احباب سے معذرت کیساتھ کچھ ایسا ہی طررِ عمل پاکستان میں
بھی نظر آتا ہے کہ ہر مرتبہ انتخابات میں شکست کے بعد جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس
شوریٰ شکست کے اسباب تلاش کرنے کیلئے انھیں 'ماہرین' پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل
دیتی ہے جنکی پالیسیوں، اقدامات، فیصلےاور حکمت عملی نے جماعت کو شکست سے دوچار
کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے جرنیلوں
نے اپنی ناکامی کا الزام یہ کہہ کر بارک اوباما پر ڈال دیا کہ سابق امریکی صدر نے
انکے ہاتھ باندھ رکھے تھےاور اگر انھیں اپنے فیصلوں میں آزادی حاصل ہوتی تو ان اجڈ ملاوں کی بیخ کنی تو بس
بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جرنیلوں کا موقف تھا کہ صدر اوباما نے انکے مشورے
کے علی الرغم افغانستان سے امریکی فوج کو
واپس بلالیا جسکی وجہ سے طالبان کوتقویت ملی اور یہ سابق امریکی صدر کی بہت بڑی غلطی تھی۔چنانچہ صدر ٹرمپ نے امریکہ
میں اضافی فوجی دستے بھیجنے کے ساتھ عسکری قیادت کو مکمل آزادی دینے کا فیصلہ
کرلیا لیکن اسی کے ساتھ جرنیلوں کو یہ بھی گوش گزار کردیا گیاکہ امریکی صدر 12 سے 18 ماہ میں فیصلہ کن نتیجے کی توقع رکھتے
ہیں اور اسے دستخط شدہ کورا چیک نہ سمجھا
جائے۔
اٖفغانستان میں
فیصلہ کن لڑائی کیلئے 21 اگست 2017کو امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے ایک
جارحانہ پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت تازہ دم 3 ہزار اضافی فوجی
مشیر،عسکری تربیت کار اور چھاپہ مار جنگ کے ماہر سپاہی افغانستان بھیجے گئے۔ پاکستان پرطالبان کے خلاف براہ راست کاروائی کرنے کیلئے
زبردست دباو ڈالا گیا۔ اسی کے ساتھ
جرنیلوں کو مکمل آزادی عطا کردی گئی۔اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سورماوں
نے سارے افغانستان پر وحشیانہ بمباری شروع
کرادی۔نیٹو کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں پر 600 فضائی حملے فی ماہ کئے گئے
لیکن 11 ماہ بعد جب گزشتہ برس جولائی میں
ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 6600 سے زیادہ فضائی
حملوں کے باوجود ایک مربع انچ زمین بھی طالبان کے قبضے سے چھڑائی نہ جاسکی بلکہ بے گناہوں کی ہلاکت سے افغان حکومت کے زیراثر علاقوں میں
بھی طالبان کی حمائت بڑھتی جارہی ہے۔
امریکی حکومت کے نگراں ادارے سینئر انسپیکٹر جنرل برائے اٖفغان تعمیرِ نو یعنی SIGARکے مطابق 52 فیصد
اٖفغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے اور اب جنوب اور مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں
کے ساتھ شمال میں فارسی بان صوبے بھی انکی
گرفت میں آگئے ہیں۔ SIGARکا کہنا تھا کہ نئی افغان پالیسی کے
تحت جرنیلوں نے امریکی سپاہیوں کو چھاونیوں اور اڈوں میں سراغرسانی، ڈرون کی
نگہبانی اور مقامی سپاہیوں کی تربیت تک
محدود کردیا ہے۔ اس 'احتیاط' کی وجہ سے
امریکہ میں تابوتوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا ہے لیکن وحشیانہ بمباری کے باوجود
میدان جنگ میں طالبان مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ غیرجانبدار عسکری ذرایع کے حوالے سے
اس نشست میں یہ بھی کہا گیاکہ طالبان کا دباو بڑھنے کے ساتھ منشیات کے استعمال
کی وجہ سے افغان فوج کی کارکردگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔
اس
رپورٹ کے بعد صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا اصولی فیصلہ کرلیا
اور جرنیلوں کوانخلا کا ایک جامع منصوبہ بنانے کا حکم دیا۔ امریکی صدر کے اس حکم سے امریکی جرنیلوں کو توصرف شرمندگی اور مایوسی ہوئی
لیکن کابل کے ڈاکٹر صاحبان یعنی ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پیروں
تلے زمین ہی کھسک گئی۔ دونوں حضرات کو معلوم تھا کہ انکے لئے امریکی فوج کی واپسی
ایسی ہی ہے جیسے کہ پیر سے معذور کسی شخص سے بیساکھیاں چھین لی جائیں چانچہ براہ
راست بات چیت کیلئے طالبان کو انتہائی پرکشش شرائط ہیش کی گئیں جس میں جلال الدین
حقانی مرحوم کے صاحبزادے انس حقانی سمیت تمام طالبان قیدیوں کی رہائی، سرکاری خرچ
پر کابل میں طالبان کے دفتر کے قیام، مذاکرات کیلئے ملک واپس آنے والے طالبان
رہنماوں کے پاسپورٹ کا اجرا،طالبان سپاہیوں کو فوج میں باوقار جگہ دینے اور شرکت
اقتدار وغیرہ شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ جکارتہ اور سعودی عرب میں علما کی
بیٹھک اور فتووں کے ڈول بھی ڈالے گئے لیکن طالبان نے کابل حکومت کی پیشکش پر غور
کرنے سے بھی انکار کردیا۔
دوسری
طرف امریکی وزارت خارجہ نے طالبان سے سلسلہ جنبانی شروع کیا۔ امریکہ کی نائب
وزیرخارجہ برائے جنوب و وسط ایشیا ایلس ویلزکی قطر میں طالبان سے براہ
راست ملاقات کی خبریں شائع ہوئیں اور 5 ستمبر کو امریکی وزارت خارجہ نے کابل میں
امریکہ کے سابق سفیر جناب زلمے خلیل زاد کو امریکی حکومت کا نمائندہِ خصوصی برائے
افغان مصالحت مقرر کردیا۔
اسی دوران صدر رٹرمپ نے مشورے اور اجلاس کے تکلف میں پڑے
بغیر شام سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی پینٹاگون کے ذرایع نے
انکشاف کیا کہ امریکی صدر نے افغانستان میں تعینات نصف کے قریب فوج کی فوری واپسی کے ساتھ مکمل انخلا کا
منصوبہ بنانے کا حکم دیا ہے۔
امریکی فوج اور وزارت دفاع شام و افغانستان سے مکمل انخلا کے حق میں نہیں۔
مشورہ کئے بغیر شام سے فوجی کے انخلا پر امریکی وزیردفاع جنرل جم میٹس نے استعفیٰ
دیدیا۔ اسی کیساتھ قدامت پسند حلقوں نے اٖفغانستان سے فوجی انخلا کے خلاف منظم مہم
شروع کردی۔ صدر کے قریبی رفیق اور مسلم مخالف سینیٹر لنڈسے گراہم (Lindsay Graham)ان قدامت پسند
جنگجووٓں کے سرخیل ہیں۔ دوسری طرف افغان حکومت نے بھی فوری انخلا کی صورت میں
اٖفغانستان پر داعش اور دوسرے دہشت گردوں کے قبضے سے ڈرانا شروع کردیا۔ کابل
انتظامیہ کا اصرار تھا کہ امن بات چیت افغان حکومت کے زیرنگرانی ہونی چاہئے۔
ستمبر میں امریکی وزیرخارجہ پاکستان آئے اور انھوں نے اپنے
پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں زور دیا
کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں کابل انتظامیہ سے بات
چیت پر رضامند کرے۔ ملاقات کے بعد امریکی سفارتخانے میں صحافیوں سے باتیں کرتے
ہوئے مائک پومپیو نے مزید فرمایا کہ پاکستان کو معاشی پریشانیوں پر قابوپانے کیلئے
IMFسے قرض لینے کی ضرورت
ہے اورامریکہ اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے
ماضی کے برخلاف پاکستان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے اور امید ظاہر کی کہ اسلام آباد
طالبان کو اٖفغان حکومت سے بار چیت پر رضامند کر لے گا۔ تعریف سے سرشار ہوکر
پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محٓمود قریشی نے
بیان جاری کردیاکہ 'طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر
بیٹھنا ہوگا'۔
زلمے خلیل زاد ایک طرف طالبان سے ملاقات کے دوران انھیں اپنے
اخلاص کا یقین دلاتے رہے تو دوسری طرف امریکی
حکومت کے خصوصی نمائندے پاکستان پر مسلسل زور دیتے رہے کہ وہ طالبان کو اٖفغان
حکومت سے براہ راست بات چیت پر آمادہ کرے۔ قطر میں ابتدائی ملاقات کے بعد جب زلمے
خلیل کابل پہنچے تو اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں فرمایا کہ اگر طالبان
مذاکرات پر راضٰی نہیں تو ہم جنگ کیلئے
تیار ہیں۔ اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد
نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکی فوج چاہے تو تیاری کرلے ہم تو گزشتہ 40 سال سے جہاد
میں مصروف ہیں اور ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں۔ اس انتباہ کے دو ہی دن بعد
طالبان نے صوبے وردک کے صدرمقام میدان شہر میں افغان حکومت کے خفیہ ادارے (NDS)کے دفتر پر حملہ کرکے سواسو سے زیادہ ایجنٹوں کو ہلاک
کردیا۔ حملے میں امریکی فوج سے چھینی گئی ایک بکتر بند گاڑی استعمال کی گئی۔
اسی کے
ساتھ سینیٹر لنڈسے گراہم کھل کر سامنے آئے۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ طالبان پسپا
ہوتی نیٹو فوج کیلئے محفوط راستے کے سوا اور کچھ دینے کو تیار نہیں۔ یہ ملا نہ تو
فوجی اڈوں پر راضی ہورہے ہیں اور نہ ہی امریکہ نواز کابل انتظامیہ سے شرکتِ اقتدار
پر۔ ملاحضرات افغان سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے
کی ضمانت دینے کو تیار ہیں لیکن اس عہد کی پاسداری کو جانچنے کا کوئی طریقہ موجود
نہیں۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر امریکی فوج غیر مشروط طور پر
افغانستان سے لوٹ آئی تو کل کویہ مولوی تاوان جنگ کا دعویٰ بھی کرسکتے ہیں۔فاضل
سینیٹر چاہتے ہیں کہ طالبان پردباو ڈال کر انھیں کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر
مجبور کیا جائے تاکہ ہتھیار ڈالنے کا تاثر نہ پیدا ہو۔ اس سلسلے میں وہ سمجھتے ہیں
کہ پاکستان موثر کردار اداکرسکتا ہے اور موجودہ معاشی پریشانیوں کے تناظر میں
پاکستان سے یہ 'خدمت' لی جاسکتی ہے۔ انھیں یہ بھی پتہ ہے پاکستانی
قیادت تعریف کی خوگر ہے اور قربت کا لارا دے کر بہت سارے کام نکالے جاسکتے ہیں
چنانچہ انھوں نے شیشے میں اتارنے کیلئے جناب عمران خان کے کانوں میں شہد گھولنا
شروع کردیاہے۔ اسلام آباد میں ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کی
بات سب سے پہلے عمران خان نے کی تھی اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ ایک صائب مشورہ
تھا۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں امن کا قیام عمران خان کا دور حکومت
میں ہی ممکن ہے۔
امریکی
سینیٹ میں فوری انخلا کے خلاف تحریک بھی پیش کردی گئی۔ اس
سلسلے میں 31 جنوری کو 28 کے مقابلے میں 68 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی گئی جس
میں کہا گیا ہے کہ داعش اور القاعدہ کی یقینی شکست سے پہلے شام اور افغانستان سے
امریکی فوج واپس نہ بلائی جائے۔ فی الحال تو صدر ٹرمپ کیلئے اس قرارداد پر عمل
ضروری نہیں کہ یہ صرف مشورہ ہے لیکن قراداد کے محرک اور سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی
کے قائدر مچ مک کونل اگلے ہفتے مڈل ایسٹ سیکیورٹی پالیسی بل کے عنوان سے ایک مسودہ
قانون پیش کرنا چاہتے ہیں جس میں فوجی انخلا سے پہلے داعش اور القاعدہ کے خاتمہ
ضروری قراردیا جائیگا۔ اس قانوں کے تحت امریکی صدر یہ تصدیق کرنے کا پابندہوگا کہ
ان دونوں قوتوں کا خاتمہ ہوچکا ہے جسکے بعد ہی امریکی فوجی واپس بلائے جاسکیں گے۔
اس
قرارداد کے باوجود صدر امریکی فوج کے انخلا کیلئے پرعزم نظر آتے ہیں۔ یکم فروری کو
وہائٹ ہاوس میں اخباری نمائندوں سے باتیں
کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ طالبان سے انتہائی سنجیدہ مذاکرات جاری ہیں اور 18 سال
میں پہلی بار اس جانب شاندار پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ داعش کو
شکست ہوچکی ہے اور افغانستان میں بچی کچھی داعش کو طالبان ٹھکانے لگادینگے۔ انکا
کہنا تھا کہ امن کیلئے طالبان کے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں اور ہم محض ممکنات
اور انجانے خوف کی بنا پر اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو ہمیشہ کیلئے میدان جنگ میں نہیں
چھوڑسکتے۔
صدر
ٹرمپ کی گفتگو سے تو ایسا لگتا ہے کہ اٖفغان امن مذاکرات جاری رہینگے اور خیال ہے
کہ زلمے خلیل زاد 24 فروری کو دوبارہ قطر پہنچیں گے جہاں بعد از انخلا بندوبست پر
بات چیت ہوگی۔ طالبان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ اٖفغانستان پر اجارہ دای قائم
نہیں کرنا چاہتے اور غیر ملکی انخلا کے بعد قائم ہونے والی امارات اسلامی افغانستان میں ہر طبقے سے عزت و
احترام اور برابری کا سلوک کیا جائیگا۔ قطرمیں طالبان کے مرکزی مذاکرات کار ملا
عبدالغنی برادراخوند نے کہا کہ موجودہ کابل انتطامیہ کو بھی شریک اقتدار کیا
جائیگا اور تمام اختلافی امور مل بیٹھ کے حل کرلئے جائینگے۔
افغان
امن کی ضمن میں امریکی سینیٹ کی مداخلت سے معاملہ خراب ہوسکتا ہے اور اس سے طالبان
کے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ فوجی انخلا کے سوال پر امریکی حکومت یکسو نہیں اور
انکے مختلف شعبوں میں شدید ابہام پایا جاتا ہے۔ امریکی کے بعض مراکز دانش کا خیال
ہے کہ قدامت پسندوں کو اصل خوف تاثر کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مکمل انخلا سے پہلے
طالبان اور اٖفغان حکومت میں امن معاہدہ ہوجائے تاکہ واشنگٹن یہ کہہ سکے کہ
افغانستان میں متحارب فریق اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کوتیار ہوگئے
ہیں لہٰذااب یہاں امریکی فوج کے رہنے کا
کوئی جواز نہیں۔ دوسری طرف طالبان کو موقف ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد ہم اپنے تنازعات کو خود مل کر حل کرلینگے۔
بظاہر صدر ٹرمپ کی نیت پر شک کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی لیکن کیا وہ امریکی
اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا تنِ تنہا فیصلہ کرسکیں
گے اسکے بارے میں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔ آئین کے تحت امریکی صدر کانگریس سے منظور
ئے جانیوالے کسی بھی بل کو ویٹو کرسکتا ہے لیکن سینیٹ کی رائے شماری سے ایسا لگتا
ہے کہ ویٹو کی صوررت میں سینٹ دوتہائی اکثریت سے صدر کے ویٹو کو غیر موثریا Over rideکرسکتی ہے۔ اب تک یہ
واضح نہیں ہوا کہ کیا ایوانِ زیریں بھی ایسی ہی بھاری اکثریت سے اس قرارداد کو
منظور کرلیگی جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔
صدر ٹرمپ کو داخلی محاذ پر اسوقت شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیق کرنے والے کمیشن کی رپورٹ اب چند ہفتوں کی بات
ہے۔میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا معاملہ اب تک کانگریس اور صدر کے درمیان تنازعہ
بناہوا ہے اورگہرے اختلافات کی بناپر 15 فروری کو حکومت دوبارہ ٹھپ ہونے کے امکان ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ
کانگریس سے مایوس ہوکر صدر ٹرمپ دیوار کی تعمیر کیلئے ایمرجنسی کارڈ استعمال کریں۔
اس صورت میں ایک اعصاب شکن عدالتی جنگ متوقع ہے۔گویا اسوقت صدر ٹرمپ کیلئے کانگریس
میں ریپبلکن پارٹی سے پنگا لیناسیاسی اعتبار سے مناسب نہیں۔
اس ضمن میں انھوں
نے 3 فروری کو امریکی صدر نے ایک تازہ ترین شوشہ یہ چھوڑ دیا کہ فوجی انخلا کے بعد
بھی امریکہ کے خفیہ ادارے افغانستان میں موجود رہینگے۔ انھوں یہ وضاحت نہیں کی کہ
ان ایجنٹوں کی حفاظت کیلئے امریکی فوج یا نجی گارڈ بھی رکھے جائینگے یاانکی دیکھ
بھال طالبان کی ذمہ داری ہوگی۔ یہ افواہ بھی ہے کہ امریکہ بہادر کی انٹیلیجنس چوکی
سرحد پر پاکستان حدودمیں بنائی جائیگی۔ صدر ٹرمپ کے اس نئے شگوفے پر طالبان کا
ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ملاوں کے تیور سے ایسا لگتا ہے کہ انکے لئے سفارتخاے اور چند قونصل خانوں کے سوا
افغا ن سرزمین پر امریکی موجودگی کا کوئی بھی نشان قابل قبول نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ
امریکی انٹیلیجنس اہلکار اتاشیوں کی شکل میں سفارتی عملے کے ساتھ تعینات کئے
جائیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 فروری 2017
No comments:
Post a Comment