Wednesday, February 6, 2019

فیض آباد دھرنے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ


فیض آباد  دھرنے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ
فیض آباد دھرنے  پر سپریم  کورٹ نے اپنا فیصلہ جاری کردیا۔ سماعت کے دوران جسٹس قاضی عیسیٰ نے  علما اور مذہبی  طبقے پر جس  قدر تحقیر و دھمکی آمیز تبصرے کئے تھے  اسکی روشنی میں یہ فیصلہ کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں۔
فاضل  جسٹس صاحب نے   فیصلہ سناتے ہوئے  ملکی ترقی اورسالمیت سے متعلق قائداعظم کے 3 فرمان  توپڑھ کرسنائے لیکن وہ یہ بتانا بھول  گئے کہ  عوام کی منتخب  اسمبلی نے تحفظ ختم  نبوت کو آئینی  تحفظ دیا ہے اور تمام  مسلم  حکومتی عمال اور کلیدی اہلکار اپنے عہدوں کا حلف اٹھاتے ہوئے تحفظ ختم  نبوت  کیلئے اپنے عزم کے اظہار کے پابند ہیں۔ یہ تنازعہ ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم پر شروع ہوا تھا۔ یہ  ترمیم  آئین کی صریح  خلاف  ورزی  تھی جس پراگر فاضل جسٹس  از خود نوٹس لے لیتے تو مولویوں  کو میدان میں  آنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ تحریک لبیک  اور  فوجی افسران  پر تنقید سے پہلے عدلیہ  کو آئین  کے بالادستی     یقینی بنانے  کے باب میں اپنی کوتاہی پر قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔
فاضل جسٹس صاحب  نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ دھرنے کے دوران ملک کو یومیہ 88 ارب سے زائد کا نقصان پہنچا۔ 16 کروڑ39 لاکھ 52 ہزار روپے مالیت کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہی۔ سڑکیں بلاک کرنے والے مظاہرین کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔
یادش  بخیراس دھرنے سے پہلے سپریم کورٹ کی  عمارت کے بہت قریب  126 دن تک مسلسل دھرنا دیا گیا جس میں:
·        ایک رہنما نے ببانگ دہل کہا  کہ بجلی و گیس کے بل نہ جمع کراو، بیرون ملک پاکستانی اپنی رقوم پاکستان بھیجتے ہوئے بینکوں کے بجائے ہنڈی کا راستہ اختیار کریں، موصوف نے چیخ چیخ  کر کہا فلاں دن لاہور جام ہوجائیگا، ملتان جام ہوگا، کراچی بند ہوگا اور آخرِ کار پورا پاکستان جام کردیا جائیگا۔ یہ صاحب خیر سےاب  ملک کے وزیراعظم ہیں۔
·        ایک اور لیڈر کی قیادت میں نکلنے والے جلوس نے پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی۔ یہ رہنما اب ملک کے صدر ہیں
·        فرزند راولپنڈی نے ہسٹریائی انداز میں  صدا دی کہ 'مارو، مرو، گھیراو، جلاو، جلادو برباد کردو وغیرہ وغیرہ۔ آجکل یہ موصوف وفاقی وزیر ہیں۔
جسٹس صاحب نے جس عرق ریزی سے فیص آباد دھرنے کے دوران ملکی نقصان کا اندازہ لگایا ہے کاش اسی مہارت سے وہ 126 روزہ دھرنے سے ہونے والے نقصانات کا ذکر بھی کرتے۔
محترم قاضی فائز عیسٰی فرماتے ہیں کہ تحریک لبیک نے عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلا۔ آپکے ارشادات سے اختلاف کرکے توہین عدالت کے الزام میں جیل جانے کی ہمت نہیں لیکن بصد ادب و نیاز عرض ہے کہ ختم بنوت کے حلف میں ترمیم  کر کے    حکومت نے عوام کو جو اذیت پہنچائی  اس پر جناب کا کیا خیال ہے۔
تحریری فیصلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نفرت، انتہا پسندی، دہشت گردی پھیلانے والوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کیا ختم نبوت  کے حق میں  مظاہرہ  کرنا یا توہین رسالت  پر مشتعل ہوجانا انتہا پسندی ہے؟ملک کی سیکیولر و مذہب  بیزار قوتوں کی سپریم کورٹ  جس طرح حوصلہ افزائی  کررہی ہے اس  کے خلاف ردعمل فطری ہے اور انتہا پسندی  کے گھونگھٹ میں منہہ چھپانے  کے بجائے جسٹس فائز عیسیٰ کو دلیل سے بات کرنی چاہئے۔
کیا ظلم ہے کہ ملکی دولت لوٹنے کے الزام میں نظر بند شریف برادران  کو جیل میں   5 اسٹار ہوٹلوں کی سہولت فراہم کی جائے جبکہ ناموس رسالت کیلئے آواز اٹھانے والے علما  جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ ضروری علاج کی سہولت سے محرومی کی بنا پر ایک 80سالہ عالم دین  جیل میں  جاں بحق بھی ہوچکے ہیں۔ انکے انسانی حقوق کی ضمانت کون دیگا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب؟؟؟؟


No comments:

Post a Comment