اسلامی
سائنس اور یورپی نشاۃ الثانیہ کی تشکیل
مسلم
امت کے علمی زوال کا سب سے بڑا شاخسانہ یہ
ہے کہ اب ہمیں اپنی
علمی تاریخ کا بھی ادراک نہیں اور
دین بیزار سیکیولر دانشوروں نےیہ بات مسلم
نوجوانوں کے دل میں بٹھادی ہے کہ دنیا کی ساری ترقی مغرب کی مرہونِ منت ہے اورتاریخ اسلامی کے دامن میں
قتل و غارتگری کے سوا اور کچھ نہیں ۔
'بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے
افسانوں سے'
امریکہ
میں مقیم سائنس کے ایک مورخ جورج صلیبا نے کافی
عرصہ قبل ' اسلامی سائنس اور یورپی نشاۃ الثانیہ کی تشکیل کے عنوان سے ایک
کتاب لکھی تھی۔ عرب نژاد جارج صلیبا جامعہ
کیلیفورنیاسے پی ایچ ڈی
کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں، اور وہاں قریباََ
چالیس سال تک تعلیم و تحقیق میں مصروف رہنے کے بعد سبکدوش ہو کر اب وہ ایمیریٹس پروفیسر
کا درجہ رکھتے ہیں۔
صلیبا کی علمی
تحقیق زیادہ تر یونانی دور کے بعد سے نشاۃ الثانیہ کے اواخر کے زمانے تک کی سائنس
کی تاریخ پر مرتکز رہی ہے۔ بالخصوص انہیں اسلامی دنیا میں ترقی پائے ہوئے ریاضی
اور فلکیات کے کام سے اور اس کام کے نظریات، طریقوں اور نتائج کے نشاۃ الثانیہ کے
دور کے یورپی سائنسدانوں تک ترسیل و انتقال اور ان پر اثر سے بہت دلچسپی رہی ہے۔ ان
کی تحقیق میں بڑی ندرت اور تازگی ہے۔ اسلامی دنیا کی علمی تاریخ کے بارے میں بہت
سے متداول نظریات سے وہ مدلل اختلاف پیش کرتے ہیں۔
یہ کتاب ان کے غیر روایتی تفکر کی بڑی اچھی مثال ہےاسلامی
سائنس کے زوال کی توجیہہ پیش کرنے کے لئے مصنف بالکل نئے، فکر انگیز نظریات پیش
کرتا ہے۔ مثلاََ وہ سمجھتا ہے کہ اسلامی سائنس کے زوال کا ذمہ دار اسلامی دنیا کا
کوئی فکری انقلاب یا سانحہ نہیں، بلکہ رفتہ رفتہ مغربی دنیا کی سائنسی سرگرمی
اسلامی دنیا سے بڑھ گئی۔ دوسرے الفاظ میں کسی تہذیب کی سائنس کا عروج وزوال ایک
نسبتی مظہر ہے۔ مختلف تہذیبوں کی سائنسی پیداوار کے باہم مقابلے سے متعین ہوتا ہے
کہ کس کی سائنس عروج پر ہے اور کس کی سائنس میں زوال آ رہا ہے۔
پندرہویں صدی تک
اسلامی، چینی اور یورپی علاقوں میں سائنس کا معیار تقریباََ ایک ہی تھا، لیکن اس
صدی کے اواخر سے یورپ میں سائنسی پیداوار کی رفتار تیز ہو گئی اور تقریباََ ایک
اور صدی گزرنے تک سائنس میں یورپی دنیا آگے نکل گئی اور اسلامی اور چینی دنیائیں پیچھے
رہ گئیں۔
کتاب کے مقصد کا
ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صلیبا کہتے ہیں' اس کتاب کا مقصد اسلامی سائنسی روائت کی عظمت
کی قصیدہ خوانی نہیں، اگرچہ اس روائت کے عظیم ہونے میں ذرا بھی شک نہیں، مگر اسلامی اور عرب دنیا کے
موجود'مابعد نو ابادیاتی' کہلانے والے لیکن درحقیقت شدید استعماری دورمیں ان
قارئین کو بالخصوص اپنی تاریخ کے رخ کو ذہن نشیں رکھنا چاہئے۔ ایسے قارئین کو میں
خلوص سے دعوت دینا چاہوں گا کہ وہ غور کریں کہ اگر صرف سیاسی و مذہبی تاریخی
واقعات کو رواجی انداز سے اکراہ کی حد تک
دہرانے کے بجائے ہماری توجہ سائینسی تخلیقات کی طرف اور جن معاشرتی اور فکری حالات
کے سبب سے وہ تخلیقات ممکن ہوئی تھیں منعطف ہوتو پھر کس طرح کی تاریخ منتج ہوگی'
اس کتاب کا اردو
ترجمہ ہمارے برادر مکرم ڈاکٹر کمال ابدالی
اور انکے ایک قریبی دوست جناب عمر میمن مرحوم نے کیا ہے۔ اردو میں یہ کتاب اسی ہفتے مشعل بکس نے شایع کی ہے۔ جو سائنس کے
طلبہ اور تحقیق کاروں کیلئے یقیناً بے حد مفید ہوگی۔
۔
No comments:
Post a Comment