انصاف کی تدفین
سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کومنطقی انجام تک پہنچانے کا پہلا اور کلیدی مرحلہ
مکمل ہوگیا۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں ذیشان احمد کو مشکوک ثابت کردیا۔ یہ
دراصل اس Profilingمہم کا تسلسل ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک
عرصے سے شروع کررکھی ہے۔ یعنی ان نوجوانوں کو خرد بین کے نیچے رکھ لیا جائے جو
باقاعدگی سے مسجد جاتے ہیں، باریش ہوں، طبعتاً نیک و شریف ہوں، اجتماعی خیر کیلئے
سرگرم ہوں اور اپنے علاقوں میں زیادتیوں
اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ہوں۔بچیوں
کیلئے Profilingکے باب میں مندرجہ بالا صفات کے ساتھ حجاب کو بھی
شامل کردیا گیا ہے۔ یہ ترجیحات دنیا کے 'بڑوں'نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے 9/11کے بعد طئے کردی ہیں جسے نیشنل
ایکشن پلان میں ٹانک کر قومی بیانیے کی شکل دیدی گئی۔اب ہر
مولوی، مدرسے کا طالب علم، پردہ دار لڑکی، حافظہ اور گلی محلوں میں سرگرم باریش
نوجوان مشکوک ہیں۔
ان معیارات کے مطابق دہشت گردوں کیلئے ایک شناختی ٹوپی تیار کی گئی ہے اور یہ
ٹوپی جس غریب کے سر پر ٹھیک آجائے اسکا سر
گرانے کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ ساہیوال کا
ذیشان بھی انھیں بدنصیبوں میں سےتھا
جسکے سر پر یہ ٹوپی فٹ بیٹھ گئی اور کراچی کی اصطلاح میں اسکے نام کی سپاری جاری
ہوگئی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ تو آج شایع ہوئی ہے لیکن نتائج پہلے دن سے نوشتہ دیوار اور آثار
پہلے دن سے بہت واضح تھے:
·
صوبائی وزیرقانون راجہ بشارت، صوبائی وزیراطلاعات فیاض
الحسن چوہان اور انکے وفاقی ہم منصب فواد چودھری پہلے دن سے ذیشان کو دہشت گرد یا
کم ازکم دہشت گردوں کا سہولت کار کہہ رہے تھے۔
·
وزیراعظم اس معاملے پر وزیراعلیٰ سے بات کرنے لاہور گئے
لیکن انھوں نے سوگواروں کے پاس جانے سے
گریز کیا۔
·
عوامی جذبات کے احترام میں ذیشان کو کھلے عام دہشت گرد قرار
دینے کے بجائے اسے مشکوک قرار دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔
اور اب جبکہ عوامی
جذبات ٹھنڈے ہوچکے ہیں تو جے آئی ٹی ی بلی تھیلے سے باہر نکال دی گئی۔
صاحبو! گزشتہ انتخابات میں کچھ بھی
نہیں بدلا نہ کوئی تبدیلی آئی ہے، بس چہروں پر گھونگھٹ و نقاب نئے ہیں۔ راجہ بشارت پہلے نواز شریف
کے شیرتھے اب دیندار نوجوانوں پر بلا
گھمارہے ہیں۔ مشرف کے دربار سے
وابستہ فواد چودھری اب بارگاہِ بنی گالہ کے جاروب کش ہیں۔ وفاقی وزیرقانون ہوں
یا بچوں کے دودھ کی رقم ہڑپ کرنے والی
زبیدہ جلال سب ہی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' مافیا کے لوگ ہیں۔
No comments:
Post a Comment