Friday, February 15, 2019

جزیرے پر ایک اکیلی خاتون


جزیرے پر ایک اکیلی خاتون
مرزاغالب  نے کہا تھا 'رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو'۔ ہمیں  یقین ہے کہ  چچا کے کلام کا کوریائی  زبان میں  ترجمہ ضرور  ہوا ہوگا کہ اسی فکر سے متاثر ہوکر جنوبی کوریا  کی ایک 54 سالہ خاتون کم سن یول  Kim Sin-Yeol شہرکی ہنگامہ خیز زندگی سے بیزار ہوکر  28 سال قبل اپنے شوہر کے ہمراہ ایک متنازعہ جزیرے پر آباد ہوگئیں۔  بحر مشرق میں واقع اس جزیرے کا جنوبی کوریا سے  فاصلہ  215 کلومیٹر  اور جاپان سے  250 کلومیٹر ہے۔اس علاقے کا ہر سمندر اور جزیرہ متنازعہ ہےمثلاً جس سمندرکو کوریا والے بحر مشرق کہتے ہیں  جاپانی اسے بحر جاپان کہنے پر مصر ہیں۔ یہی حال  اس جزیرے کا ہے جس پر یہ جوڑا جاکر آباد ہوا۔ جغرافیہ دان اسے جزیرہ ہی نہیں مانتے انکا خیال ہے کہ یہ سمندر میں ابھری ہوئی چٹانیں ہیں جنھیں علمائے ارضیات نے  Liancourt Rocksکا نام دیا ہے لیکن جنوبی کوریا نے اپنا جھنڈا لہرا کر دوجزیروں پر مشتمل اس علاقے کو جزیرہ ڈوکڈو (Dokdo Island)کا نام دیدیا۔ جاپانی کہاں پیچھے رہنے والے تھے انھوں ان چٹانوں کو  جزیرہ تاکاشیما (Takeshima) پکارتے ہوئے  اس پر دعویٰ دائر کردیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ جنوبی کوریا اور جاپان دونوں نے46 ایکڑ  رقبے کے لئے لڑائی جھگڑے کے بجائے اقوام متحدہ میں  اپنا مقدمہ پیش کررکھا ہے ۔ عملا! اس پر جنوبی کوریا کی عملداری ہے۔بحر مشرق یا بحر جاپان میں جزیرہ ڈوکڈو کے ارد گرد جنوبی کوریا   کنویں کھودکر بھربھری چٹانوں کو گیس ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کررہا ہے۔
یہ دونوں میاں بیوی  جو پیشہ ور غوطہ خور ہیں  1991 میں یہاں آکر  آباد ہوگئے اور انھیں  یہ جگہ بہت پسند آئی۔ انکے پاس پر جدید ترین کشتی ہے جس  کے ذریعےیہ لوگ کوریا اور جاپان  جاکر ضرورت کا سامان لے آتے۔ بحری طوفانوں میں یہ جزیرہ کئی کئی ہفتے  دنیا سے کٹ جاتا ہے اور اس دوران انکا گزارہ  آبی خوراک  پر ہوتا ہے۔ جنوبی کوریا کوسٹ گارڈ کی چوکی سے بھی انھیں بوقت ضرورت پانی اور دوسرا سامان مل جاتا ہے۔ یہاں بجلی ہے  ، نہ گیس  اور نہ ٹیلی فون کی سہولت۔انکی کشتی پر مواصلاتی نظام نصب ہے جبکہ کوریائی بحریہ کی  کشتیاں بھی ا  نکی خبر گیری کرتی رہتی ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں  جب کم کے شوہر کا انتقال ہوگیا تو اسکی بیٹی  نے   والدہ کو اپنےساتھ کوریاواپس لے جانا چاہا مگر بڑی بی اس پر تیار نہیں، کہتی ہیں انٹرنیٹ ، ٹیلی ویژن، اخبار، سوشل میڈیا، بجلی، فون اور رشتے داردں کے بغیر رہنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اب ان خاتون کی عمر  81 برس ہے اورپیری سو عیب  کے مصداق  انھیں کئی  بیماریاں بھی لاحق ہیں لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی یاد میں بقیہ زندگی  یہیں  گزار کر اسی جزیرے پر اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں آسودہِ خاک ہونگی۔ تاہم اللہ نے انکو بڑی سعادت مند بیٹی عطاکی ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ  اپنی ماں کے پاس آتی جاتی رہتی ہے اور یہ دونوں کئی کئی ہفتے  ماں کے پاس  رہتے بھی ہیں لیکن انھوں نے اس جزیرے کی سکونت اختیار نہیں کی اسلئے جزیرہ  ڈوکڈو یا تاکاشیما کی سرکاری آباد صرف 1 ہے۔کیا واقعی انٹرنیٹ ، حکومت اور رشتے داروں  کے بغیر جینے کا اپنا مزہ ہے؟
بات ختم  کرنے سے  پہلے غالب کی اس غزل کے چند اشعار جسے ہم نے اپنی پوسٹ کا عنوان بنایا ہے
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑ ئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجایئے تو نوحہ خوان کوئی نہ ہو






No comments:

Post a Comment