تھا جسکا انتظار وہ شاہکار آگیا
باخبر
ذرایع کے مطابق حکومت اور مسلم لیگ ن میں NROطئے
پاگیا ہےجسکے مطابق میاں نوز شریف، شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز اپنی
زبانوں پر تالے لگا کر کچھ عرصہ
میدان سیاست سے باہر رہیں گے۔
·
پہلے مرحلے
میں میاں نواز شریف کو جیل سے ہسپتال
منتقل کردیا جائیگا
·
اگلے مرحلے
میں انھیں علاج کیلئے ملکی سے باہر جانے کی اجازت دیدی
جائیگی
·
محترمہ مریم نواز کچھ عرصہ تک صرف موذیوں کا منہہ بند رکھنے کیلئے تندوتیز بیانات
جاری کرینگی اور پھر آہستہ آہستہ سیاست سے کنارہ کش ہوجائینگی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ والد کی تیمارداری کیلئے باہر
چلی جائیں
·
شہباز شریف کے
خلاف نیب کا شکنجہ مزید تنگ کیا جائیگا
اور وہ بطور احتجاج پبلک اکاونٹس کمیٹی سے
استعفٰے دیدیں گے
·
کچھ عرصے بعد وہ بھی براستہ ہسپتا ل ملک سے باہر چلے
جائینگے
یہ
سارا کام اس سان جون تک مکمل ہوجائیگا۔
سوال
یہ ہے کہ کپتان یہ کڑوی گولی نگلنے پر رضامند کیسے ہوگئے تو اس کی وجہ پیپلز پارٹی کے تیکھے تیور، کراچی سے
کامیاب ہونے والے تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی اور عالمِ بالا سے اشارے ہیں۔
تحریک انصاف کے نام پر زیادہ تر نئے لوگ خیبر پختونخواہ اور کراچی سے آئے ہیں ۔ پنجاب
میں تو Electables المعروف لوٹے
تبدیلی کا باعث بنے ہیں جنھیں کھانے، کمانےاور نوازشوں سے دلچسپی ہے۔
کراچی سے ابھرنے والی نئی قیادت کچھ کر
دکھانا چاہتی ہے لیکن سندھ پر پیپلز پارٹی
کی گرفت خاصی مضبوط ہے اور جب تک اس قلعہ
میں شگاف نہ ڈالا جائے دال گلنا مشکل ہے
کہ 18 ویں ترمیم کےبعد صوبائی حکومتیں
خاصی مضبوط ہوگئی ہیں اور بلدیات
سمیت تمام ترقیاتی کامو ں کا آغاز
و آختتام وزیر اعلٰی کے دفتر سے ہوتا ہے۔
کراچی کی شہری حکومت ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہے جو کہنے کو تو پی ٹی آئی کی
اتحادی ہے لیکن انکا باہمی رشتہ باعزت خاندانوں کی ان ناکام
شادیوں کی طرح ہیں جہاں دونوں فریق ایک
دوسرے کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں لیکن خاندانی عزت کے نام پر زندگی گزار
لیجاتی ہے۔
تحریک
انصاف قومی اسمبلی میں اقلیتی پارٹی ہے
جسکے342 کے ایوان میں صرف 156 ارکان ہیں جبکہ واضح اکثریت
کیلئے 172 ووٹ درکار ہیں۔
اسوقت ایم کیوایم ، ق لیگ، بلوچستان عوامی
پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الا ئنس اور شیخ رشید کوملا کر حکومتی اتحاد 177 نشستوں پر
مشتمل ہےاور ایم کیو ایم کے 7 ارکان جب چاہیں اپنی نشستیں تبدیل کرکے حکومت کو غیر
مستحکم کرسکتے ہیں۔
مشیروں (اور سرپرستوں) نے کپتان کو زمینی حقائق سے آگاہ کردیاہے اور اب
عمران صاحب کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی
ہے کہ سب سے ایک ساتھ پنگا مناسب نہیں ۔اسکے علاوہ کچھ درپردہ معاملات نے بھی کپتان کو سعادتمندی پر مجبور کردیا ہے۔
جیسے فیصل واوڈا کی دہری شہریت اور لندن میں جاگیر، ہمشیرہ اول کے دبئی و نیوجرسی
میں مکانات، علیم خان کی لوٹ مار اور خود خانصاحب کیخلاف ہیلی کاپٹر ریفرنس وغیرہ۔
نواز لیگ
کو طرح دیکر پیپلز پارٹی سےبھڑجانے کا فیصلہ مقتدرہ سے ممکنہ نصرت کی امید پر کیا
جارہا ہے۔پیپلزپارٹی نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کاواضح اعلان کردیاہے اور پیپلز
پارٹی کی حمائت کے بغیراس ترمیم کی سینیٹ سے منظوری ممکن نہیں۔ اسی کے ساتھ اٹھارویں ترمیم میں کسی بھی قسم کی ترمیم پیپلز پارٹی کیلئے قابلَ قبول نہیں اوربلاول نے صدارتی نظام کی شدید مزاحمت کا
اعلان کیا ہے۔ ان حساس معاملات پر پیپلز پارٹی کا دوٹوک اور بظاہر غیر لچکدار
موقف مقتدرہ کو پسند نہیں اور عفیفہ بھی پیپلز پارٹی کا مزاج درست کرنا چاہتی
ہے۔ اسی بنا پر مسلم لیگ کو NRO یا نرمی کاگاجر دکھاکر احتساب کی لاٹھی کو پیپلزپارٹی کیلئے
مختص کیا جارہا ہے۔
دوسری
طرف نوازشریف کے اعصاب بھی جواب دے گئے ہیں۔ حالانکہ انھیں جیل میں
5 اسٹار ہوٹل کی سہولت حاصل ہے
لیکن نازونعم کے عادی میاں صاحب کیلئے آراستہ و پیراستہ جیل میں مزید ٹہرنا ممکن نہیں ۔ انکے قریبی رفقا
کا کہنا ہے کہ میاں صاحب گم سم رہتے ہیں
اور لوگوں کو ڈر ہے کہ کہیں وہ
نفسیاتی مریض نہ بن جائیں۔ میاں صاحب کو ماضی کے تجربے کی بنا
پر یہ یقین بھی ہے
کہ مقتدرہ ان سے ناراض تو ہے لیکن یہ کمسن دل کی بری بری نہیں اور رویہ درست کرکے حسینہ کو
آسانی سےمنایا جاسکتا ہے۔پہلے بھی طیارہ
آغوا کیس میں سزائے موت کی دھمکی اور جبری
ملک بدری کی شکل میں تادیب و چھترول کے بعد مقتدرہ نے لیلائے
اقتدار سے وصال کی راحت فراہم کردی تھی چنانچہ امیدِ بہار میں ایک بار پھر پیوستہ شجر
رہا جاسکتا ہے اور وقتی فراق کی
کلفتیں جیل کی تنہائیوں کے مقابلے
میں کچھ بھی نہیں۔
No comments:
Post a Comment