Thursday, February 21, 2019

یغور مسلمانوں سے بدسلوکی پر ترکی اور چین کی سفارتی کشیدگ

یغور مسلمانوں سے بدسلوکی پر ترکی اور چین کی سفارتی کشیدگی
ترکی نے چین کے یغور مسلمانوں سے بدسلوکی کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انسدادِ انتہاپسندی کے نام پر چینی حکومت نے لاکھوں ترکی النسل یغور(Uighur)مسلمانوں کو بیگار کیمپوں میں ٹھونس رکھا ہے جسے چینی حکومت تربیتی ادارے کہتی ہے۔ بیجنگ کاکہنا ہے کہ انتہاپسندی کے سدباب کیلئے مسلمانوں کو ان اداروں میں اعتدال، بقائے باہمی اور مثبت طرزِ فکر کی تربیت دی جارہی ہے۔چینی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تربیت کے نام پر مسلمانوں کو اپنا عقیدہ چھوڑ کر ملحد ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے زیادہ مسلمان ان کیمپوں میں ہیں جہاں انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پاکستان ، افغانستان اور ہندوستان سے متصل چینی صوبے سنکیانگ (Xinjiang)میں ایک کروڑ یغور مسلمان آباد ہیں۔ تیل و گیس سے مالامال اس صوبے میں مسلمانوں کا تناسب 45 فیصد ہے۔ چینی حکومت نے اسلام کو چینی ثقافت و اقدار سے ہم آہنگ پابند بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے جسک لئے “Sinicize Islam”کے عنوان سے ایک قانون منظور کیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس ضابطے کا مقصد اسلامی قوانین حتیٰ کہ توحیدو رسالت   اور آخرت سمیت بنیادی عقائد کو کمیونسٹ فلسفے اور چینی روایات کا تابع کرنا ہے۔
بیجنگ نے اگلے چند برسوں میں تمام یغور مسلمانوں کو 'چینی اسلام' سکھانے کا منصوبہ بنایا ہے جسکے لئے تربیت گاہ کے نام سے بیگار کیمپ قائم کئے گئے ہیں جہاں مسلمانوں کوانکا عقیدہ چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ فجر سے پہلے لوگوں کو اٹھاکر چینی صدر ژی کی 'حمد' سنائی جاتی ہے جسکے بعد لیکچر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ کیمپوں میں مسلمانوں کو نماز کی اجازت نہیں اور ہر کھانے کے ساتھ سور کا گوشت ضروری ہے۔ تربیت دینے والے اساتذہ اپنے 'شاگرووں' کو سمجھارہے ہیں کہ سور عربوں کے یہاں غلیظ جانور تھا جسکی وجہ سے عرب اسلام میں اس پر پابندی ہے لیکن چین میں تمام جانوروں کی افزائش کے دوران حفظان ِ صحت کا خیال رکھااجاتا ہے اسلئے 'چینی اسلام' میں سور جائز ہے اور اسے حرام کہنا انتہا پسندی کی علامت ہے۔ یہی دلیل شراب کے بارے میں بھی ہے کہ عربوں کے یہاں کچی شراب استعمال ہوتی تھی جو خللِ دماغ کا سبب بنتی تھی لیکن چینی اسلام میں شراب پانی اور دوسرے مشروبات کی طرح ہے لہٰذا اسکی مخالفت مذہبی انتہا پسندی ہے۔ نماذ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جہاں سب لوگ نماذ نہ پڑھتے ہوں وہاں کام ، پڑھائی یا پارٹی کے دوران چند لوگوں کے نماذ کیلئے اچانک کھڑے ہوجانے سے معاشرے میں تقسیم پیدا ہوتی ہے جو قومی اتحاد کے لئے ٹھیک نہیں۔
عورت و مرد کے درمیان یکسانیت کے نام پر مخلوط غسل خانے قائم کئے گئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عرب معاشرے میں مرد اور عورت الگ الگ رہا کرتے تھے جبکہ چینی معاشرے میں مردوزن کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور مخلوط غسل خانوں کی وجہ سے ماں باپ باتھ روم میں اپنےبچوں کی مل کر مدد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح 'چینی اسلام' میں صدر ژی عوام کی محبت و عقیدت کے مستحق ہیں لہذا سیرت النبی کے بجائے چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کے اقوال پڑھائے جارہے ہیں۔جو لوگ ان کیمپوں میں نہیں انکی بھی سخت نگرانی کی جارہی ہے۔ جن گھروں کے مرد کیمپوں میں ہیں انکی خواتین کی حفاظت کیلئے چینی فوج کے مرد سپاہی تعینات کئے گئے ہیں اور یہ 'محافظ' گھر کے اندر رہتے ہیں۔
آجکل ہمارے پی ٹی آئی کے احباب احتساب اور انصاف کیلئے چینی ماڈل کا ذکر بہت ذوق شوق سے کرتے ہیں۔ سنکیانگ میں ہر جرم پر بہت سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان جرائم میں صوم و صلوٰۃ، سور کے گوشت یا شراب سے انکار، گھر، گاڑی اور جیب سے قرآن کی برآمدگی،بچیوں کے گلے میں اللہ کے لاکٹ وغیرہ شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں انسانی حقوق کے عالمی ادارے Human Right Watchیا HRW نے تفصیلی تحقیق کے بعد یغور مسلمانوں کے خلاف کاروائی کو ثقافتی تطہیر قراردیا ہے۔HRWنے یورپی ممالک اور اسلامی دنیا سے یغور مسلمانوں کی حالتِ زارپر آواز اٹھانے کی درخواست کی تھی۔ کل ہی یہ خبر بھی شایع ہوئی کہ 57 برس کے یغور شاعر عبدالرحیم حیات کو نعت کہنے کے الزام میں چینی فوج نے گرفتار کرلیا اور بدترین تشدد سے انکی موت واقع ہوگئی۔ عبدالرحیم کی موت پر ترکی نے چین سے شدید احتجاج کیا اور کل ترک وزارت خارجہ کے ترجمان حامی اقصٰی Hami Aksoy نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یغور مسلمانوں کی ثقافتی تطہیر اور انھیں اپنا عقیدہ چھوڑنے پر مجبور کرنا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور ساری انسانیت کیلئے شرمناک ہے۔ترک وزارت خارجہ نے چین پر زور دیا کہ بیگار کیمپوں کو فوری طور ہر بند کرکے وہاں نظربند مسلمانوں کو عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔ ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ عقیدے اور طریقہ عبادت کی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس سے کسی انسان کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔
ترک وزارت خارجہ کے اس بیان پر بیجنگ نےشدید ردعمل کا اظہار کیا اور جناب حامی اقصیٰ کی ہم منصب محترمہ ہوا چنیانگ Hua Chunying نے اب سے تھوڑی دیر پہلے چینی دارالحکومت میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ترک وزرت خارجہ کے بیان کو حقائق کے منافی اور غیر ذمہ دارانہ قراردیا۔ انھوں نے یغور شاعر کی موت کی تردید کی اورایک آڈیوکلپ سنائی جس میں عبدالرحیم کہہ رہے تھے وہ بالکل خیریت سے ہیں اور ان پر کسی قسم کا تشدد نہیں ہوا۔ تاہم چینی وزارت خارجی کی ترجمان نے اس بات کی تردید یا تصدیق سے انکار کردیاکہ یہ مسلم شاعر زیر حراست ہیں۔ترجمان نے کہا کہ انتہاپسندوں کو قتل کرنے اوران پر بمباری سے بہتر ہے کہ ہم نصاب میں تبدیلی اور تربیت کے ذریعےانتہاپسندانہ نظریات کی بیخ کنی کررہے ہیں۔اس ہٹ دھرمی کا کسی کے پاس کیا جواب ہے؟؟؟؟


No comments:

Post a Comment