سعودی ولی عہد کی ملک آمد کے دوران سوشل میڈیا پر کچھ منفی
مواد بھی شایع ہورہا ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں
یہ کوئی قابل تشویش بات نہیں۔ یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ خارجہ پالیسی کے
بارے میں ساری قوم یکسو ہو۔ جب فروری
1999 کو ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد پر میاں نواز شریف نے انکے لئے
دیدہ ودل فرشِ راہ کئے تو اسکے خلاف مظاہرہ میں ہم خود بھی شریک تھے کہ
ہماارے خیال میں کشمیرکا مسئلہ حل ہوئے
بغیر ہندوستان سے قریبی تعلقات مظلوم کشمیریوں کی پشت میں چھرا گھونپنے کے متراداف
ہے۔
بالکل اسی طرح بہت سے پاکستانیوں کو یمن اور شام میں سعودی
عرب کے کردار پر تحفظات ہیں۔ ترکی کے سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کا امریکی سینیٹ سمیت دنیا کے بہت سے لوگ MBSکو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کی پاکستان میں بھی
کوئی کمی نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ شہزادہ صاحب کو بھی اس بات کا اندازہ ہے۔ لندن اور
یورپی ممالک کے دوروں میں انھوں نے اپنے
خلاف مظاہروں کا خود بھی مشاہدہ کیا ہے۔
ایک جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے ہر شہری کا حق ہے اور یہ
ممکن نہیں کہ ہر شخص اپنے مہمان پر ایسے ہی واری فدا ہو جیسے وزیراعظم نظر آرہے
ہیں۔
تاہم حکومت اس
معاملے میں غیر ضروری طور ہر حساس ہے اور شہزادہ صاحب کے خلاف کسی بھی بات کو ملک
دشمنی تعبیر کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزارت داخلہ نے جو 'خفیہ مراسلہ' جاری
کیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور یہ بات اس لحاظ سے مزید دکھ کا باعث ہے
کہ وزرات داخلہ کا قلمدان وزیراعظم نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہواہے یعنی جناب عمران
خان اس دستاویز کے ذاتی طور پر ذمہ دار
ہیں۔
·
اس میمو میں شیعہ تنظیموں کا نام لے
کر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان پر نظر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
·
شیعہ تنظیموں کے خلاف اس 'فردجرم' میں کہیں بھی ا نکی طرف سے تشدد کی کسی
کاروائی کا خدشہ نہیں ظاہر کیا اور سارا اعتراض اس بات پر ہے کہ یہ تنظیمیں مبینہ
طور پر مہمانِ گرامی کے دورے کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کررہی ہیں۔ ایک جمہوری معاشرے
میں موقف کی پرامن تشہیر کوئی بری بات نہیں۔
·
میمو میں نام لے کر شیعہ کمیونٹی کا ذکر کیا گیا ہے جس سے ایسا تاثر ملتا ہے
کہ گویا شیعانِ پاکستان سعودی ولی عہد کے دورے کا ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
ہم شیعہ نہیں لیکن شیعہ بھائی ہمارے معاشرے کا اہم جزو ہیں
اور انکے وقار کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری
ہے۔ اگر کچھ پاکستانی سعودی مہمانوں کے دورے کو ملی مفاد میں نہیں سمجھتے تو انھیں اس بات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ عمرا ن
خان کو چاہئے کہ وہ خود کو عقلِ کل سمجھنا چھورڈیں اور لوگوں کی اظہار رائے کی آزادی کا احترام
کریں کہ عوام کو یہ حق ملکی دستور نے دیا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سب سے
بڑافائدہ یہ ہے کہ شایع شدہ خبر اگر جھوٹی اور بے بنیاد ہو تو اسکی تردید،
تصیح اور وضاحت کے ذریعے نقصان کا ازالہ
کیا جاسکتا ہے۔دوسری صورت میں سینہ گزٹ سے
اٹھنے والا جھوٹ کا طوفان ایک بڑی مصیبت کھڑی کرسکتا ہے۔
حکومت مخالفانہ رائے کو دبانے میں کس حد تک کامیاب ہے اسکا انداز صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ مذکور یادداشت حد درجہ خفیہ قرار دی گئی ہے اور تنبیہ مکرر کے طور پر اس پر جلی
حروف میں For Eyes Onlyبھی لکھا ہے لیکن یہ
میمو کل سےسوشل میڈیا پر گشت کررہا ہے۔
کوئی فواد چودھری کو سمجھائے کہ یہ 2019 ہے۔ اس دور میں
ڈیجیٹل میڈیا پر پہرے بٹھانا آسان نہیں۔ چین نے اپنےمسلم اکثریتی علاقے سنکیانک
میں نشرواشاعت پر مکمل پابندی لگارکھی ہے۔ انکا جاسوسی نظام دنیا میں ایک مثال ہے
لیکن انکی جیلوں میں ہونے والے تشدد کے مناظر بھی سوشل میڈیا پر نشر ہورہے ہیں۔
فیس بک، ٹویٹر اور دوسرے سوشل میڈیا کے لوگوں نے سینکڑوں اکاونٹ بنارکھے ہیں کسی ایک کے بلاک ہونے کی صورت میں بقول احمد فراز ' رات جب
کسی خورشید کو شہید کرے تو صبح اک نیا
سورج تراش لاتی ہے'
No comments:
Post a Comment