لہو لہو لورالائی
ابھی لورالائی میں
ڈی آئی جی آفس پر دہشت گرد حملے کا
سوگ جاری ہی تھا کہ آج پشتون تحفظ مومنٹ (PTM) کے رہنما ارمان
لونی کی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں
قتل نے ان زخموں پر نمک
چھڑک دیا ۔ ارمان کی ہمشیرہ وڑانگہ
لونی کا کہنا ہے کہ بم دھماکے کے خلاف دھرنے
کے بعد
ارمان لونی پارک میں چائے پی رہے تھے کہ پولیس اہلکار وہاں آئے اور تشدد کیا جس کے
دوران سر پر چوٹ آنے سے ارمان لونی ہلاک ہوگئے۔حکومت نے ارمان کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ تاہم بی بی سی
کے مطابق لورالائی پولیس کے ایک سینئر
اہلکار نے بتایا کہ ارمان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جارہا ہے اور رپورٹ آنے کے بعد یہ معلوم ہوسکے گا کہ ان پر
تشدد ہوا ہے یا نہیں۔
دوسری
طرف پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ کا
کہنا ہے کہ لورالائی میں پی ٹی ایم دھرنے کے خلاف پولیس کریک ڈائون کے دوران ارمان
لونی کو قتل کیا گیا۔
واقعے کا سب سے افسوسناک پہلو ابلاغ عامہ کے ادارو ں کی جانب سے اس خبر کا مکمل بائیکاٹ
ہے۔ رونامہ امت کے علاوہ یہ خبر کہیں اور شائع نہیں ہوئی۔تاہم بی بی سی اور
افغانستان کے ذرایع ابلاغ نے اس خبر کو بہت اہمیت دی۔
ملکی مقتدرہ پی ٹی ایم کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتی
اور اسکی سرگرمیوں کو ملکی سلامتی کے خلاف سمجھتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اہلِ اختیار
کا گمان درست ہو لیکن اسکا علاج اغوا یا ماورائے عدالت قتل نہیں۔ مملکت کو چاہئے کہ وہ
ثبوت کے ساتھ ان لوگوں کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کرے اور اگر کوئی ٹھوس ثبوت
موجود نہیں تو محض تنقید کی بنا پر کسی کو غدار کہنا یا سمجھنا کسی طور مناسب نہیں۔ قانون نافذ کرنے ادارے جب خود ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں گے تو پھر
دہشت گردوں سے کیسی شکائت؟؟ ظلم وناانصافی ہی وہ جوہڑ ہیں جہاں دہشت گردی کے
جراثیم انڈے بچے دیتے ہیں۔ جرائم کا سدباب قانون کی حکمرانی اور شفاف عادلانہ نظام
سے ہی ممکن ہے۔ ریاستی دہشت گردی سے اس
عفریت کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔
شکریہ جناب
ReplyDeleteورنہ پاکستان میں مڈیا اور جرنلزم کی نام کی کوئی شئے نہیں...