جہاد ہمارے آقا(صلعم) کی سنت ہے کبھی ترک
نہیں کرینگے
قطر
مذاکرات کے دوران کل اسوقت شدید کشیدگی
پیدا ہوئی جب طالبان کی جانب سے انخلا کے
اصرار پر امریکیوں نے کہا کہ اگر طالبان جہاد ترک کرنے، جہاد کی تبلیغ ختم کرنے،
نوجوانوں کو جہاد پر اکسانے اور جہادی لٹریچر تلف کرنے کا وعدہ کریں تو نیٹوفوری
انخلاپر غور کرسکتا ہے ۔ صحافتی ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ سن کر طالبان شدید غصے میں
آگئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ جہاد ہمارے آقاکی سنت ہے جسے ہم ترک کرنے کے
بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ انھوں نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ جہاد
کا ہی ثمر ہے کہ آپ ہم سے خود بات کرنے
آئے ہیں ورنہ آپ کی طاقت کے آگے کھڑا ہونا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ہماری
کامیابی جہاد کی بدولت ہے اور اب جبکہ فتح ہمارے پیروں کے نیچے ہے ہم جہاد
ترک کرکےاپنے رب کی ناشکری نہیں کرسکتے۔یہ
کہہ کر طالبان کا پورا وفد اٹھ کر چلا گیا۔
زلمے
خلیل زاد یہ دیکھ کر سٹپٹاگئے کہ انھیں نرم دم ِ گفتگو ملاوں سے اس سپاٹ ردعمل کی
توقع نہ تھی۔ امریکیوں نے قظری حکام کے ذریعے طالبان سے معذرت کرلی جسکے بعد
مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے اور آغاز ہی میں ملاوں نے واضح کردیا کہ فلاحی ریاست،
شرعی نظام اور جہاد پر کوئی سودے بازی
نہیں ہوگی۔ ہم اپنی زندگی و آرام
اور چند روزہ اقتدار کیلئے لاکھوں نوجوانوں کے خون کو نہیں بھلا
سکتے۔
باخبرذرایع
کے مطابق طالبان کا مزاج اب تک برہم ہے۔ گفتگو کے اس مرحلے میں امریکیوں اور طالبان کے ساتھ قطری حکام بھی شریک
رہے اور زلمے خلیل زاد کا زیادہ تر وقت
ملاوں کو منانے میں گزرا۔ جسکے بعد وہ
ہندوستان روانہ ہوگئے۔ دوسری طرف طالبان
مذاکرات کی غیر ضروری طوالت سے بھی مطمئن نہیں اور اخباری ذرایع کے مطابق طالبان کے ترجمان جناب شاہین نے صحافیوں سے غیر رسمی باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ فوری انخلا
پر راضی نہ ہوا تو مزید بات چیت بے کار ہے۔
ہمارا
خیال ہے کہ اصل رکاوٹ خود جناب زلمے خلیل
زاد ہیں
جن میں نہ تو قائدانہ صلاحیت ہے اور نہ ہی اختیار کہ موقع
پر فیصلہ کرسکیں۔ انھیں ہربات کیلئے
واشنگٹن سے پوچھنا پڑتا ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ وزیرخارجہ مائک پومیپیو یا قومی
سلامتی کیلئے صدر ٹرمپ کے مشیر جان بولٹن امریکی وفد کی قیادت سنبھال لیں۔
No comments:
Post a Comment