ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
پڑوسیوں
سے کشیدگی کوئی اچھی بات نہیں اور بگڑے
تعلقات کو بہتر کرنے کی خواہش ایک قابل تحسین قدم ہی۔ عمران حکومت ہندوستان سے
تعلقات درست کرنے کے معاملے میں سنجیدہ اور حد درجہ مخلص ہے۔ پلوامہ کے بعد
ہندوستانی جارحیت پر بھی عمران خان ننے
تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کے خطرے کوتدبر سے ٹال دیا۔
مودی جی
نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد اسلام اور پاکستان دشمنی پر رکھی۔ اسکے
باوجود انتخابات میں نریندرا مودی کی کامیابی پر عمران خان نے
اعلیٰ ظرفی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں مبارکباد کا پرجوش پیغام بھیجا۔
اس پیغام میں پاکستانی وزیراعظم نے باہمی امن کیلئے مل کر کام کرنے پر رضامندی بھی ظاہر کی۔
خیر
سگالی کے ان عالیشان مظاہروں کے جواب میں ہندوستان کے روئے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری میں سارک کے تمام سربراہوں کو
دعوت دی جارہی ہے لیکن عمران خان کو اس میں مدعو نہیں کیا گیا اور کل بی جے پی کے
ترجمان نے کہا کہ جب تک پاکستان دہشت
گردوں کی سرپرستی ختم نہیں کردیتا بھارتی
عوام پاکستانی قیادت کے استقبال کو تیار نہیں۔
پاکستان
کی جانب سے خیرسگالی کے جواب میں
بھارت کے اس تحقیرآمیزروئے کے بعدبات چیت کی خواہش کا اظہار
کسی طور مناسب نہیں اور اب اسلام آباد کو دلی کی جانب سے کسی مثبت اشارے سے پہلے
دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے گریز کرنا چاہئے۔
تاہم
خبر گرم ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے
موقع پر مودی عمران ملاقات کی تجویز پیش کی ہے۔ تنظیم کا چوٹی اجلاس اگلے ماہ
کی 14 اور 15 تاریخ کو کر غستان کے
دارالحکومت بشکیک میں ہوگا۔
امن کی
خواہش قابل تحسین ہےلیکن پائیدارامن قوت اور مضبوط موقف سے ہی ممکن ہے۔ دوستی کیلئے
باوقار انداز میں ہاتھ بڑھانا اور بانہیں
وا کرنا تو احسن قدم ہے لیکن امن
کیلئے کشکول پھیلانا کسی طور
درست نہیں۔
No comments:
Post a Comment