ایک اور
متنازعہ پوسٹ
شمالی وزیرستان ،
پشتونوں اور بلوچوں پر دو تین پوسٹ کے جوا ب میں احباب کی جانب سے حب الوطنی کے لیکچر سن کر ارادہ کیا
تھا کہ اس موضوع پر مزید نہیں لکھونگا
لیکن ابھی خبرآئی ہےکہ
گرفتار ارکان قومی اسمبلی علی وزیر
اور محسن داوڑ کو عام عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے انکا مقدمہ انسداد دہشت
گردی عدالت میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور گرفتار ارکان قومی اسمبلی سی ٹی ڈی (CTD)کی تحویل میں ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمیں ان دونوں حضرات سے کوئی
ہمدردی نہیں خاص طور سے داوڑ صاحب کی وہ ٹویٹ اب تک سینے میں گڑی ہوئی ہے جس میں
انھوں نے صدر اوباما کیلئے نوبل انعام کی حمائت میں دلیل تھی کہ امریکی صدر کے حکم
پر سی آئی اے کے ڈرونز سے وزیرستان
میں مدارس اور مساجد پر حملہ کرکے
سینکڑوں ملاوں کو ہلاک کیاگیا۔
میرا تعلق پاکستان کے ان بدنصیب لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے
اپنی نوجوانی میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ
دیش بنتے دیکھا۔ اسوقت بھی ' لٹکادو' 'گولی
ماردو' ' غداروں کو سرعام پھانسی دو' کے نعرے گونجتے تھے۔ لیکن 16 دسمبر 1971 کے
بعد سے ہم دودھ کے جلوں کو چھاج سے بھی خوف آتا ہے۔
کیا علی وزیر اور داوڑ پر عام عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا
جاسکتا؟ ہم منصفانہ عدالتی نظام کے جتنے
بھی دعوے کریں دنیا انسداد دہشت گردی کی عدالت کو شفاف تسلیم نہیں کرتی۔ اسکے
علاوہ CTDکی شہرت بھی اچھی
نہیں اسکی اکثریت مشکوک کردار کے جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے جودوران اعتراف جرم
کیلئے زیر تفتیش قیدیوں کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔
اس اہم اور حساس
مسئلے پر وزیراعظم کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے پاکستانی میڈیا پر خبریں نہیں آرہیں
لیکن مغربی دنیا میں اسکا منفی
تاثر ابھر رہا ہے اور معاملے کو اقوام
متحدہ کی حقوق انسانی کمیٹی میں لے جانے کی باتیں ہورہی ہیں۔
کیا ہی بہتر ہو کہ فائرنگ کی آزاد عدالتی تحقیقات کے
ساتھ گرفتار شدگان کے مقدمات سول عدالتوں
میں پیش کئے جائیں اورالزامات ثابت ہونے پر عدالتی حکم کو نافذ کیا جائے۔ معاملہ انسدادِ
دہشت گردی یا فوجی عدالت لے جاے سے تو یہ
لوگ دنیا میں مظلوم بن جائینگے۔
No comments:
Post a Comment