ایک عید کا ہنگامہ
حسب
معمول اس بار بھی 'ایک عید' پر بحث مباحثہ
جاری ہے ۔ہمیں جذبات سے بالاتر ہوکراس
معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لینے
کی ضرورت ہے۔ اسی نیت سے احباب کی خدمت میں چند سطور۔
یہاں بنیادی اختلاف اس بات پر ہے کہ عید قمری کیلینڈر کے مطابق منائی جائے یا چاند
دیکھ کر۔ اس ضمن میں یہ وضاحت بھی ضروری
ہے کہ جس طمطراق سے وزیرسائنس و ٹیکنالوجی نے قمری کیلنڈر 'ایجاد'کیا ہے وہ اس
دور میں پہیہ ایجاد کرنے والی بات ہے۔ یعنی قمری کیلینڈر کا
نظام کئی صدیوں سے جاری ہے۔ جو افراد ڈیسک یا ٹیبل کیلینڈر استعمال کرتے ہیں ان پر
عیسوی کے ساتھ قمری تاریخیں بھی درج ہوتی ہے۔
پاکستانی
مسلمانوں کی اکثریت چاند دیکھ کر رمضان و عید منانے کی قائل ہے اور روئت میں
اختلاف کی گنجائش رہتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت
بھی ضروری ہے کہ قمری کیلنڈر کی موجودگی کے باوجود سعودی عرب میں بھی روئت کے مطابق عید منائی جاتی ہے اور شاہی روئت
ہلال کمیٹی چاند دیکھنے کا اہتمام کرتی ہے۔ وہاں کئی بار ایسا ہوا کہ کمیٹی نے بعد میں وضاحت جاری کہ کہ رمضان کی روئت میں غلطی ہوگئی
تھی اور لوگ ایک اضافی روزہ رکھ لیں۔
احباب
چونکہ امریکہ سے بہت زیادہ مرعوب ہیں تو عرض ہے کہ امریکہ میں بھی ISNAکی فقہ کمیٹی مختلف شہروں سے چاند کی شہادت ملنے کے بعد رمضان اور عیدین کا اعلان
کرتی ہے۔ ہیوسٹن جیسے بڑے شہروں کی فقہ
کمیٹیاں اپنے طور پر روئت کا اہتمام کرتی
ہیں۔ جبکہ یہاں کچھ لوگ سعودی روئت کے مطابق عید مناتے ہیں۔ امریکہ میں بھی ایک سے زیادہ دن عید ہوتی ہے۔ اس سال بوہرہ
مسلمانوں نے مصری کیلنڈر کے مطابق ایک دن پہلے رمضان شروع کیا ہے لہٰذا اس بات کا
امکان ہے کہ انکی عید ایک دن پہلے ہوجائے۔
ہمیں
اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ فکری
اور نظری اختلاف کی بنا پر ایک سے زیادہ عید ہوسکتی ہے ۔اتحاد ملت کیلئے ایک دن
عید منانا ضروری نہیں بلکہ ایک دوسرے کے احترام اور برداشت سے معاشرے میں حقیقی ہم آہنگی پیدا ہوگی۔
اختلاف رائے معاشرے کا حسن ہے۔ فرقہ
واریت مہذب اختلاف رائے سے نہیں بلکہ
اپنی رائے پر اصرار اور دوسروں کی توہین سے پیدا ہوتی ہے۔
سنی اور شیعہ مسلمانوں کے روزہ کھولنے کے وقت میں چند منٹوں کا فرق
ہوتا ہے ۔ ایسی افطار پارٹی جہاں شیعہ بھی
موجود ہوں سنی اپنے وقت پر کھجور کھاکر
روزہ کھول لیتے ہیں اور پھر چند
منٹ بعدشیعوں کے ساتھ مل کر افطار کا لطف اٹھاتے ہیں۔ان دونوں میں سے کسی کو بھی
اپنے وقت کے درست ہونے پر اصرار نہیں
ہوتا۔برداشت کا یہی باوقار رویہ عیدین کیلئے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
اگر
احباب ذرا غور سے دیکھیں تو اس بار چاند کا ہنگامہ کھڑا کرنے والوں میں مذہب بیزار سیکیولر عناصر پیش پیش ہیں۔ انکا ہدف
علمائے اکرام ہیں اور چاند کی آڑ میں علما کے خلاف توہین آمیز مہم شروع
کردی گئی ہے۔ جیسے پہلے زمانے کی شریف
بیبیاں بہوکو سنانے کیلئے بیٹیوں کو سخت و سست کہا کرتی تھیں ویسے ہی یہ سیکیولر طبقہ دینی شعائر کی توہین کیلئے 'مولبی' پر تبرہ پڑھتا ہے۔ ہم
نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment