جنوبی افریقہ کے پارلیمانی انتخابات
8 مئی
کو جنوبی افریقہ کے پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ملک براعظم
افریقہ کے عین جنوب پر واقع ہے۔ اسکے جنوب مشرق میں بحر ہند اور جنوب مغربی ساحل
پر بحراوقیانوس موجزن ہے۔ نمیبیا، بوٹسوانا، زمبابوے اور موزنبیق اسکے شمالی پڑوسی
ہیں۔پانچ کروڑ 80لاکھ نفوس پر مشتمل جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کا تناسب 2 فیصد سے بھی کم ہے لیکن تعلیم اور تجارتی
صلاحیتوں کی بنا پر مسلمانوں کا اثرورسوخ یہاں خاصہ ہے۔الجماعت کے نام سے مسلمانوں
نے یہاں ایک سیاسی جماعت قائم کررکھی ہے
جسے بڑے شہروں کی مونسپل کمیٹیوں میں کچھ نشستیں بھی مل جاتی ہیں۔مشہور مبلغ حضرت احمد دیدات (ر) کا تعلق جنوبی افریقہ ہی سے تھا۔
جنوبی
افریقہ کئی دہائیوں تک مقامی سیاہ فام لوگوں کیلئے ایک قید خانہ بنارہا اور Apartheidکے نام سے نسل پرستی کو باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل تھا۔
امریکہ سمیت دورحاضر کے تمام 'مہذب' ممالک Aparthiedکو نہ صرف جائز سمجھتے تھے بلکہ اسکے خلاف پرامن جدوجہد
کرنے والا نیلسن مینڈیلاایک مستند دہشت گرد تھا۔ تاہم نوجوان پاکستانیوں کو جنھیں
اب اپنے ملک کی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی یہ سن کر فخر ہوگا کہ پاکستان نے دنیا کے
ہر فورم پر Apartiedکی بے لاگ اور دوٹوک
مخالفت کی۔ اگر کسی کےپاس پرانا پاکستانی
پاسپورٹ ہو تو اسکی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا کہ'یہ پاسپورٹ جنوبی
افریقہ اور اسرائیل کے علاوہ ساری دنیا کے لئے کارآمدہے' ۔ 1994 میں جب Apartheidکے خاتمے کے بعد
انسانی مساوات کی بنیادپر جمہوریہ جنوبی افریقہ کی ریاست قائم ہوئی تو جنوبی
افریقہ کے سفر پر پابندی ختم کردی گئی۔
جنوبی افریقہ میں صدارتی نظام نافذ ہے۔ پاکستان کی طرح مقننہ دوایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور قومی کونسل (سینیٹ) پر مشتمل
ہے۔ جنوبی افریقہ میں متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے۔ یعنی براہ راست پارٹیوں کو
ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور ہر پارٹی کو اسکے
مجموعی ووٹوں کے تناسب سےنشستیں مختص کردی جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کی
تعداد 400ہے اور سینیٹ میں تمام کے تمام 9 صوبوں کی نمائندگی یکساں ہے اور ہر صوبے
سے 10 ارکان منتخب کئے جاتے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 2 کروڑ ساڑھے
67 لاکھ سے کچھ زیادہ ہے جس میں 55 فیصدخواتین ہیں۔ آج ووٹ ڈالنے کا تناسب 67.37فیصد رہا۔ ان انتخابات میں 48 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا لیکن
اصل مقابلہ برسراقتدار افریقی نیشنل کانگریس(ANC) ، حزب اختلاف کے جمہوری اتحاد (DA) اور بائیں بازو کے معاشی مساوات محاذ (EFF)کے درمیان تھا۔حکمراں جماعت 1994
میں Aparthiedکے خاتمے کے بعد سے
برسراقتدار چلی آرہی ہے۔ تاہم اس بار
گھمسان کا رن پڑا۔ تادم تحریر 19 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر ANC کو53.89فیصد ووٹ ملے ہیں۔ گزشتہ انتخابات
میں ANC کو 62.15فیصد ووٹ ملے تھے۔ 27.14 فیصد کے ساتھ DAدوسرے نمبر پر ہے۔
2014 کے انتخابات میں 23.22فیصد ووٹروں نے DAکے حق میں رائے دی تھی۔EFF کو اب تک 7.84فیصد ووٹ ملے ہیں
جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ڈیڑھ فیصد زیادہ ہے۔ مسلمانوں کی الجماعت 0.23فیصد ووٹوں کے ساتھ 13ویں نمبر پر ہے۔
ANCکی مقبولیت میں کمی
بہت واضح ہے لیکن سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ گنتی مکمل ہونے پر حکمراں جماعت 50
فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیگی۔ ملک کے 9 میں سے 8 صوبوں میں ANC کو برتری حاصل
اور صرف مغربی کیپ میں DAحکمراں جماعت سے آگے ہے۔
No comments:
Post a Comment