Monday, May 20, 2019

آزادی یا شکم؟؟ فلسطینیوں نے ٹرمپ امن منصوبہ رونمائی سے پہلے ہی مسترد کردیا


آزادی یا شکم؟؟ فلسطینیوں نے ٹرمپ امن منصوبہ رونمائی سے پہلے ہی مسترد کردیا
صدر ٹرمپ نے  25 اور 26 جون کو بحرین کے دارالحکمومت منامہ میں فلسطین امن منصوبے  کے سب سے اہم پہلو کی رونمائی کیلئے مشرق وسطیٰ، ایشیا ، یورپ اور امریکہ کے سرمایہ کاروں کا اجلاس طلب کیاہے۔   امن منصوبے کا افتتاحی مرحلہ فلسطین کیلئے عظیم الشان اقتصادی پیکیج پر مشتمل ہوگا۔ اس منصوبے کے خالق  امریکہ کے دامادِ اول جناب  جررڈ کشنر ہیں۔ اس اجلاس میں سرمایہ کاروں کے ساتھ   علاقے کے وزرائے خزانہ اور اسرائیل و فلسطین کے نمائندوں کوبھی  طلب کیا جارہا ہے۔
اب تک اس منصوبے کی تفصیلات کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن امریکی رہنماوں کی بات چیت سے لگ رہا ہے کہ یہ اسی قسم کا منصوبہ ہے  جیساجناب  نوازشریف اور پرویز مشرف  کشمیر  کیلئے پیش کررہے تھے۔ یعنی آزادی وخودمختاری کو بھول کر  ہندوستان  اور پاکستان کے درمیان مشترکہ اقتصادی سرگرمیوں کے ذریعے علاقے کی اقتصادیات کو بہتر بنایا جائے۔ جب لوگ خوشحال ہونگے تو باہمی نفرت  ختم ہوجائیگی اور پھر سرحد کے دونوں طرف کے لوگ مل بیٹھ کر  اس مسئلے کا خود ہی ایک پرامن حل نکال لینگے۔
دلچسپ بات کہ جیسے مقبوضہ کشمیر کی قیادت نے آزادی و استقلال کی فاقہ کشی کو غلامی کی شکم پروری پر ترجیح دیتے ہوئے اس منصوبے کو یکسر مسترد کردیا تھا کچھ ایسا ہی رویہ اب فلسطینیوں کا بھی ہے۔
رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین نے امریکہ منصوبے پر غور کرنے سے بھی انکار کردیاہے۔ فلسطین کے وزیراعظم محمد شطیہ نے کہا کہ یہ فلسطینوں کے گلے میں ڈالروں کا طوق ڈالنے کی ایک کوشش ہے اور فلسطینی ایسے کسی منصوبے پر گفتگو کیلئے تیار نہیں جو انکی مشاورت کے بغیر بنایا گیا ہو۔ انھوں نے کہا کہ  ایسا کوئی منصوبہ جس میں بیت المقدس سمیت  فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کی واپسی،فلسطینیوں سے چھینی ہوئی زمین پر تعمیر غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کے انہدام اور خودمختار فلسطین کے قیام کی  ضمانت شامل نہ ہو اسکی حیثیت  ردی کاغذ کےٹکڑے سے زیادہ  کچھ نہیں۔ بعد میں   فلسطین کے وزیرسماجی بہبود نے  اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اب تک  حماس  کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن امریکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم تصور کرتی ہے لہٰذا اسے اس کانفرنس کی دعوت نہیں دی  جارہی ہے۔ 
 ٹرمپ منصوبے کوکثیر البنیاد بنانے کیلئے فلسطین کے ساتھ مصر، لبنان اور اردن  کو بھی پرکشش اقتصادی مراعات  پیش کی جارہی تاہم فلسطین کے اہم پڑوسی شام کو اس معاملے سے الگ رکھا  گیا ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ منہہ میں پانی بھر آنے والی شاندار پیشکش کا مقصد لبنان  کے عیسائی صدر اور وزیراعظم الحریری  کو حزب اللہ سے ناطہ توڑنے پر آمادہ کرنا ہے۔

No comments:

Post a Comment