طلائی لمس،
سبز پیر یا ٹیکس چوری
صدر
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک کامیاب تاجر ہیں اورلکشمی دیوی ہر وقت ان پر سایہ فگن
رہتی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران
امریکی صدر کہا کرتے تھے کہ انکےGolden Touchیا طلائی لمس سے مشتِ خاک بھی سونا بن کر لاکھ کی ہوجاتی ہے اور جس کاروبار کو انھوں نے ہاتھ لگایا وہاں سے
درہم و دینار کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ ہمیں کہنا تو ڈالر چاہئے لیکن دولت
کیلئے درہم و دینار کا استعارہ زیادہ اچھا محسوس ہوتا ہے۔ تاہم کل نیویارک ٹائمز نے انکے 1985سے 1994تک کے
ٹیکس گوشواروں کی جو نقول شائع کی ہیں اسکے مطابق صدر ٹرمپ کو تقریباً ہرسال کروڑوں
ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا اور ان دس سالوں کے نقصانات کا مجموعی حجم ایک ارب 17
کروڑ ڈالر ہے۔ جناب ٹرمپ نے جواخانے کے
کاروبار میں 4کروڑ 61 ڈالر ڈبائے تو ہوائی
جہاز کمپنی بھی اڑنے سے پہلے ہی بیٹھ گئی۔ کئی فلک بوس پلازوں کی تعمیر شروع ہوئی
مگر معاملہ بنیاد سے آگے نہ بڑھ سکا۔ان
نقصانات کے نتیجہ تھا کہ ان دس میں 8
سالوں کے دوران انھوں نے ایک پائی بھی
ٹیکس ادا نہیں کیا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ اپنی مخالف ہلیری کلنٹن پر تنقید کرتے ہوئے
کہتے تھے کہ محترمہ پہلے خاتون اول کی حیثیت سے قومی خزانے پر پلیں پھر سینیٹر اور وزیرخارجہ بن کر عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتی رہیں جبکہ
میں 17 برس کی عمر سے محنت مزدوری کررہا ہوں اور خزانے سے کچھ وصول کرنے کے بجائے کروڑوں ڈالر ٹیکس ادا کرتا
ہوں۔
اس خبر کی اشاعت کے بعد صدرکے گزشتہ چند سالوں کے گوشواروں
کی اشاعت کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ امریکہ میں یہ روائت ہے کہ تمام صدارتی
امیدوار اپنے گزشتہ 5 سے 10 سال کے گوشوارے اشاعت عام کیلئے جاری کرتے ہیں لیکن
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ٹیکس حکام انکے ٹیکس حسابات
کی جانچ پڑتال (Audit)کررہے ہیں لہٰذا وہ اپنے گوشوارے جاری نہیں کرسکتے۔ انکے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ انکے ٹیکس حسابات میں ایسی کیا بات ہے کہ گزشتہ پانچ سال سے ہر
گوشوارے کی جانچ پڑتال کی ضرورت پیش آرہی ہے؟
کانگریس میں ڈیموکریٹک
پارٹی دھمکی دے رہی ہے کہ اگر صدر
ٹرمپ نے اپنے ٹیکس گوشوارے اشاعت عام کیلئے جاری نہیں کئے تو کانگریس صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے طلب کرنے
کیلئے امریکہ کے محکمہ ٹیکس (IRS)کو سمن جاری کریگا۔
صدر ٹرمپ نیویارک ٹائمز پر سخت برہم ہیں، انکا کہنا ہے کہ
بند کمروں میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر تجزیہ ہانکنے والے صحافتی جغادریوں کو نہ
کاروبار کا کچھ پتہ اور یہ یہ ٹیکس قوانین کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ اپنے ٹویٹ
میں انھوں نے کہا کہ کاروبار میں نقصان
اور جائیداد کی فرسودگی یاDepreciationپرٹیکس میں چھوٹ ملتی ہے اور انھوں نے قانون کے مطابق
اس سہولت کا استعمال کیا ہے۔
انکے مخالفین کہتے ہیں کہ ٹیکس میں تو شائد کوئی فراڈ نہ
ہوا ہولیکن ہر سال خسارے سے یہ بات ثابت
ہوگئی ہے کہ صدر ٹرمپ کامیاب اور لائق و فائق تاجر نہیں۔ دوسری طرف گزشتہ کئی
سالوں کے گوشواروں کی اشاعت سے انکار پر انکے کاروبار کے شفاف ہونے پر انگلیاں اٹھ
رہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment