امریکہ کے بدلتے تیور ۔۔ گیدڑ بھبکی یا نیت کا
فتور؟؟
افغانستان
سے امریکی فوجوں کی واپسی اور علاقے میں امن کاقیام مشکوک نظر آرہا ہے۔ چند ماہ
پہلے تک تو ایسا لگ رہاتھا کہ جیسےامریکہ ملاوں کی شرائط تسلیم کرکے وہاں سے اپنی
فوج ہٹانے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے زلمے خلیل زاد جو باتیں کررہے
ہیں اس سے لگتا ہے چچا سام واپسی میں سنجیدہ نہیں اور طالبان کے حوالے میں
پاکستان، ایران، روس و چین کے تحفظات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ افغانستان میں غیر معینہ مدت تک رہنے کے بہانے تراش رہے ہیں۔
اٖفغانستان
کے بارے میں امریکہ کا موقف تھا کہ تنازعہ
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہے اور جس دن یہ دونوں امن و مصالحت پر رضامند
ہوگئے امریکہ دو اڈوں پر ضروری عملے کے علاوہ ساری فوج افغانستان سے واپس بلالے
گا۔دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2001 میں امریکہ نے جب افغانستان کے
خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا اسوقت وہاں طالبان کی حکومت تھی چنانچہ مذکرات امارات
اسلامی افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونے چاہئیں اور وہ بھی محض افغانستان سے
غیر ملکی فوج کے واپسی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر۔طالبان چاہتے ہیں کہ انخلا مکمل و
غیر مشروط ہو اور وہ غیر ملکی فوج کا کوئی اڈہ اپنے ملک میں برداشت کرنے کوتیار
نہیں۔
صدر
ٹرمپ نے 21 اگست 2017 کو افغان مسئلے کے حل کیلئے ایک جارحانہ عسکری پالیسی کا
اعلان کیا تھا جسکے بعد ایک سال تک افغانستان پر خوفناک بمباری کا سلسلہ شروع ہوا
اور 12 مہینوں تک اوسطاً 600 حملے فی ماہ کے حساب سے ملک کے طول وعرض پر آگ برسائی
گئی لیکن ہولناک بمباری کی اس خوفناک مہم کے بعد جب گزشتہ برس جولائی میں ایک
اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 6600 سے زیادہ فضائی حملوں کے
باوجود ایک مربع انچ زمین بھی طالبان کے قبضے سے چھڑائی نہ جاسکی بلکہ بے
گناہوں کی ہلاکت سے افغان حکومت کے زیراثر علاقوں میں بھی طالبان کی حمائت بڑھتی
جارہی ہے۔ امریکی حکومت کے نگراں ادارے
سینئر انسپیکٹر جنرل برائے اٖفغان تعمیرِ نو یعنی SIGARکے
مطابق 52 فیصد اٖفغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے اور اب جنوب اور مشرقی افغانستان
کے پشتون علاقوں کے ساتھ شمال میں فارسی
بان صوبے بھی انکی گرفت میں آگئے ہیں۔
رپورٹ پر صدر ٹرمپ نے
شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔جب صدر کو یہ بتایا گیا کہ افغانستان پر قبضہ برقرار
رکھنے کیلئے امریکہ کو ہرسال 70 ارب ٖڈالر خرچ کرنے پڑرہے ہیں تو باخبر ذرایع کے
مطابق صدر کا غصہ دیکھنے کے قابل تھا۔
موصوف نے اپنے جذبات کے اظہار کیلئے غیر
پارلیمانی الفاظ کا دل کھول کر استعمال کیا اور کہا کہ Enough is Enough”اب
افغانستان سے نکلنے کا وقت آگیا ہے”انھوں نے اپنے جرنیلوں کوانخلا کا
ایک جامع منصوبہ بنانے کا حکم دیدیا۔
صدر کے اس فیصلے کی انکے
قدامت پسند ساتھیوں نے شدید مخالفت کی لیکن صدر ٹرمپ کے حکم پرامریکہ کی نائب
وزیرخارجہ برائے جنوب و وسط ایشیا ایلس ویلزنے قطر میں طالبان سے براہ
راست ملاقاتوں کے ذریعے بات چیت کا آغاز کردیا۔ یہ ملاقات غیر اعلانیہ تھی لہٰذا
اسکے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا لیکن صحافیوں سے غیر رسمی بات
چیت میں امریکی وزارت خارجہ کے افسران نے طالبان کے روئے کو حوصلہ افزا اور منطقی
قراردیا۔
گزشتہ
برس 5 ستمبر کو امریکی وزارت خارجہ نے کابل میں امریکہ کے سابق سفیر جناب زلمے
خلیل زاد کو امریکی حکومت کا نمائندہِ خصوصی برائے افغان مصالحت مقرر کردیا۔ اسی
کےساتھ امریکی وزارت دفاع المعروف پینٹاگون کے ذرایع نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر
نے افغانستان میں تعینات نصف کے قریب فوج
کی فوری واپسی کے ساتھ مکمل انخلا کا منصوبہ بنانے کا حتمی حکم جاری کردیا ہے۔
مذاکرات
کارکے طور پر زلمے خلیل زاد کا تقرر طالبان کو پسند نہ تھا۔ زلمے ملا و مدارس سے
سخت الرجک ہیں اور انکی دین بیزاری بھی بڑی واضح ہے۔ ان کا شمار ان 'دیسیوں' میں
ہوتا ہے جو امریکی شہریت حاصل کرنے کے بعد خود کو اپنے ملک میں امریکہ کا وائسرائے
سمجھنے لگتے ہیں۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد موصوف امریکہ کے سفیر مقرر
ہوئے۔ بطور سفیر زلمے خلیل زاد کا افغان حکام سے برتاو اتنا خراب تھا کہ صدر حامد
کرزئی نے کئی بار ان سے ملنے سے انکار کردیا۔
زلمے
خلیل زاد کے حوالے سے شدید تحٖفظات کے باوجود طالبان نے ان سے ملاقات پر آمادگی
ظاہر کردی لیکن قطر میں ابتدائی ملاقات کے
بعد ہی شدید بدمزگی پیدا ہوئی۔ رسمی گفتگو کے بعد جب زلمے صاحب کابل پہنچے تو انھوں نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں
فرمایا کہ اگر طالبان امن مذاکرات پر راضٰی
نہیں تو ہم جنگ کیلئے تیار ہیں۔ اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا اور طالبان
کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں
کہا کہ امریکی فوج تیاری کرلے ہم
گزشتہ 40 سال سے جہاد میں مصروف ہیں اور ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں۔ اس
انتباہ کے دو ہی دن بعد طالبان نے صوبے وردک کے صدرمقام میدان شہر میں افغان حکومت
کے خفیہ ادارے (NDS)کے دفتر پر حملہ کرکے سواسو سے زیادہ ایجنٹوں کو ہلاک
کردیا۔ حملے میں امریکی فوج سے چھینی گئی ایک بکتر بند گاڑی استعمال کی گئی۔
دوسری جانب امریکی سینیٹ
میں فوری انخلا
کے خلاف تحریک بھی پیش کردی گئی۔ 28 کے مقابلے میں 68 ووٹوں سے منظور کی جانیوالے
قرارداد میں کہا گیا کہ داعش اور القاعدہ کی یقینی شکست سے پہلے شام اور افغانستان
سے امریکی فوج واپس نہ بلائی جائے۔ صدر ٹرمپ نے قرارداد کو نظر انداز کرتے ہوئے
دوسرے ہی دن وہائٹ ہاوس میں اخباری نمائندوں
سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ طالبان
سے انتہائی سنجیدہ مذاکرات جاری ہیں اور 18 سال میں پہلی بار اس جانب شاندار پیش
رفت ہوتی نظر آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ داعش کو شکست ہوچکی ہے اور افغانستان میں
بچی کچھی داعش کو طالبان ٹھکانے لگادینگے۔ انکا کہنا تھا کہ امن کیلئے طالبان کے
اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں اور ہم محض ممکنات اور انجانے خوف کی بنا پر اپنے
بیٹے اور بیٹیوں کو ہمیشہ کیلئے میدان جنگ میں نہیں چھوڑسکتے۔
قطر
میں امریکی وفد اور طالبان کے درمیاں فرورری کے اختتام سے 16 دن جاری رہنے والی
بات چیت کے بعد ایک طویل ٹویٹ میں سربراہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ' طویل
ملاقات کے اس مرحلے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکہ
اور طالبان دونوں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کیلئے پرعزم ہیں اور بات چیت کے
دوران مختلف امور پر شدید اختلاف کے باوجود ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے
ہیں'۔ جناب خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ مرحلہ بے نتیجہ ختم ہوگیا ہےلیکن
ترجیحات اور ایجنڈے پر اتفاق ہوچکا ہے۔ جو کچھ اسطرح ہے:
·
بعدازامن
انسدادِ دہشت گردی کے موثر و وقابل اعتماد اقدامات
·
افغانستان سے
غیر ملکی فوج کا انخلا
·
افغان گروہوں
کے درمیان بات چیت
·
جنگ بندی
جناب
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ایجنڈے کے پہلے دو نکات پر معاہدے کیلئے مسودے پر بھی اتفاق
ہوچکا ہے ۔ ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان نے کہا " no breakthrough" but
"no breakdown either"۔ مختصر سےجملے کے ذریعے طالبان نےامیدو رجا کی جو کیفیت
بیان کی اس سے ایسا محسوس ہوا کہ امن کے راستے کی بڑی رکاوٹیں دور ہوچکی ہیں۔
واشنگٹن میں صحافتی ذرایع نے اس بات کی تصدیق کی کہ نیٹو فو ج کے انخلا کے بعد
طالبان نے انسدادِ دہشت گردی کے جو اقدامات تجوئز کئے ہیں اورپسپا ہوتی امریکی فوج
کو واپسی کا محفوظ راستہ دینے کیلئے طالبان جو یقین دہانیاں کرارہے ہیں اس
پر پینٹاگون مطمئن ہے۔
اب
اصل تنازعہ نئے بندوبست میں کابل سرکار کے کردار پر ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان
اشرف غنی سے مل کر انھیں یہ ضمانت دیں کہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد کابل
انتظامیہ کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی جائیگی۔طالبان امن و انصاف کی
ضمانت پر راضی ہیں لیکن وہ کابل حکومت کو امریکی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں اورا سکے
ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ امریکی سفارتی ذرایع کاکہنا ہے کہ طالبان کو اس بات پر
کوئی اعتراض نہیں کہ اشرف غنی یا انکا کوئی نمائندہ امن مذاکرات کے دوران امریکی
وفد کا حصہ بن جائے لیکن وہ کابل حکومت سے براہ راست گفتگو نہیں کرینگے۔
اس
دوران افغانستان کے سابق صدرحامد کرزئی نے افغانوں اور طالبان کے درمیان بات چیت
کی تجویز پیش کی۔ طالبان کا کہنا تھا کہ وہ خود افغان عوام میں سے ہیں لہٰذااپنے
بھائیوں سے ملنے کیلئے وہ ہر وقت تیار ہیں۔چنانچہ جرگہ بلاکر ایک نمائندہ وفد
تشکیل دینے کی تجویز پیش کی گئی۔ افغانستان کی تمام جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے
لوگ طالبان سے ملنے کے مشتاق تھے چنانچہ 250 افراد کا بھاری بھرکم وفد قطر پہنچ
گیا۔ طالبان نے اس وفد سے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کردیا ہے کہ یہ ولیمے کی دعوت
نہیں بلکہ سنجیدہ گفتگو ہے جو سینکڑوں لوگوں کے ہجوم میں نہیں کی جاسکتی۔
اسوقت
سے امن مذاکرات عملاً معطل ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے زلمے خلیل زاد علاقے کے ممالک کے
دورے پر ہیں۔ اس سلسلے میں 25 اپریل کو ماسکو میں امریکہ، روس اور چین کے مابین
افغانستان کیلئےخصوصی نمائندوں کی سطح پر
ایک سہ فریقی کانفرنس ہوئی جس میں بہت سے نکات پر تینوں ملکوں درمیان کامل اتفاق پایا گیا۔ امریکہ کے
زلمے خلیل زاد، چینی حکومت کے نمائندے ڈینگ شیجن (Deng Zijun)، اور روسی صدر
کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابولوف (Zamir Kabulove) نے جن امور پر
اتفاق کیاان میں سے اکثر تو طالبان امریکہ مذاکرات میں طئے ہونے والے نکات کے
مطابق ہیں لیکن فوری جنگ بندی طالبان کیلئے قابل قبول نہیں۔ قطر میں امریکہ اور
طالبان کے درمیان طئے پاجانے والی ترجیحات کا اعلان خود زلملے خلیل زاد نے کیا تھا
جسکے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی موثر و وقابل اعتماد
ضمانت کے بعد امریکی فوج کی واپسی شروع ہوجائیگی جسکے بعد طالبان افغانوں کے مشورے
سے مستقبل کی سیاسی صورتگری اور بندوبست
کا اہتمام کرینگے۔ لیکن ماسکو مذاکرات میں فوری اور غیر مشروط فائر بندی کو ترجیحِ
اول قراردیا جارہا ہے۔
سہ
فریقی معاہدے کے بعد زلمے خلیل زاد کا لہجہ بھی تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ 28 اپریل
کو کابل میں طلوع نیوز کو ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے مکمل
اور غیر مشروط فائر بندی کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ
گئےکہ امریکہ کی ترجیح افغانستان سے واپسی نہیں بلکہ ایک جامع سیاسی تصفیہ ہے جسکی
نگرانی اٖفغان حکومت کریگی۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قابل عمل معاہدے کے
بعد ہی افغانستان سے غیر ملکی فوج کی واپسی شروع ہوگی۔ انھوں نے زور دیکر کہا کہ
اصل چیز سیاسی تصفیہ ہے جس سے واپسی کی راہ ہموار ہوگی۔ جناب خلیل زاد نے غیر مبہم
انداز میں کہا کہ امن معاہدے سے پہلے نیٹو افواج کا انخلا ممکن نہیں۔ انھوں نے کہاکہ
طالبان واپسی کے ٹائم ٹیبل پر اصرار کررہے ہیں۔ ہم اسکے لئے تیار ہیں لیکن
فوجوں کی واپسی امن معاہدے سے
مشروط ہے۔
زلمے
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے اخراجات اور یہاں تعینات سپاہیوں کو لاحق
خطرات کہ بنا پر ہم افغانستان سے اپنی فوج کا نکالنا چاہتے ہیں لیکن یہ واپسی ذمہ
دارانہ انداز میں ہوگی اور امریکہ خوشگوار یادیں چھوڑ کروطن واپس جانا چاہتا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ نے سوویت یونین کے انخلا سے سبق سیکھا ہے اور ہم
وہ غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے۔ انھوں نے طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ کی جناب سے
موسم بہار
کے آغاز پر سارے افغانستاں میں 'فتح' کے عنوان سے جارحانہ فوجی مہم کے آغاز پر
شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انکا کہنا تھا کہ عسکری مہم اور امن مذاکرات ساتھ ساتھ
نہیں چل سکتے۔
امریکہ کے تبدیل ہوتے
موقف پر اب تک طالبان کو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور مبصرین کا خیال ہے کہ
مولوی مذاکرات کے اگلے مرحلے تک اپنی رائے کا اظہار نہیں کرینگے۔ مذکرات کے گزشتہ
دور کےبعد طالبان خاصے پرامید تھے بلکہ ماسکو میں طالبان کے ترجمان عبدالسلام حنفی
نے تو امید ظاہر کی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی فروری کے اختتام
پر شروع ہوگی اور اپریل تک نصف فوجی ہٹالئے جائینگے۔ حنفی صاحب کے اس بیان پر
تبصرہ کرتے ہوئے امریکی دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا تھاکہ فی الحال افغانستان
سےمکمل یا جزوی انخلا کا ٹائم ٹیبل طئے نہیں ہوا لیکن اگر تمام فریق اس بات کی
ضمانت دیں کہ (انخلا کے بعد) افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں تو امریکہ
اپنی فوج کی تعداد میں کمی پر غور کرسکتا ہے۔
بعض
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ زلمے خلیل زاد کے بیانات اٖفغان حکومت کی دلجوئی کیلئے
ہیں اور وہ کابل کے ڈاکٹر صاحبان کو یہ تشفی دینا چاہتے ہیں کہ امریکہ انھیں بے
یارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔ طالبان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ انھیں فوج کے
انخلا کے راستے بھی حائل شدید رکاوٹوں کا پہلے ہی سے اندازہ تھا۔ ایران و پاکستان
سمیت افغانستان کے پڑوسیوں کو اپنی سرحدوں کے دوسری طرف ایک شفاف و دیانت دار
اسلامی حکومت قابلِ قبول نہیں۔ تاہم مولوی حضرات بظاہر اپنے موقف سے دستبردار ہوتے
نظر نہیں آتے۔ طالبان کے ایک رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ہم امن
مذاکرات کیلئے اب بھی مخلص و پرعزم ہیں اور اللہ کے بھروسے پر طالبان میز اور میدان دونوں جگہ اسوقت تک ڈٹے رہینگے جب تک ہماری مقدس
سرزمین پر ایک بھی غیر ملکی فوجی موجودہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 مئ 2019
No comments:
Post a Comment