Saturday, May 11, 2019

نیا قانون ۔۔ سعادت حسن منٹو


نیا قانون ۔۔ سعادت حسن منٹو

آج   11 مئی ممتاز ادیب و افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ ہے اس مناسبت سے انکے ایک مشہور افسانے 'نئے قانون' سے ایک اقتباس۔ احبا ب اگر اسے 'نئے پاکستان' کے حوالے سے پڑھیں تو شائد زیادہ لطف آئے کہ  کچھ سیانے اسے  سعادت حسن منٹو کے 'نئے قانون' سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

 اس افسانے کا مرکزی کردار لاہور کا منگو کوچوان ہے جس نے سن رکھا تھا کہ یکم اپریل سے'انڈین ایکٹ'ناٖفذ ہونے والا ہے۔ اس زمانے میں اشتراکیت کا جادو سر چڑھ بول رہا تھا اور 'اب راج کریگی خلق خدا' کا ترانہ عام تھا۔ منگو انڈین ایکٹ کو کچھ ایسی ہی چیز سمجھ بیٹھا تھا۔ اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:


گورے نے سگریٹ کا دُھواں نگلتے ہوئے کہا’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘
’’
وہی ہے‘‘۔ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی اندر دُہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہو گیا۔ کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی، اور اس خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی۔ اسے طوہاً ’’کرہاً‘‘ بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کر دیا ہوتا۔ بلکہ اس کے پُرزے اُڑا دئیے ہوتے، مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہو گیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔ استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا۔ ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔ گورے نے جواب دیا۔’’ہیرا منڈی‘‘۔ ’’کرایہ پانچ روپے ہو گا۔ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔ یہ سن کر گورا حیران ہو گیا۔ وہ چلاّیا۔ پانچ روپے۔ کیا تم...... ؟‘‘ ’’ہاں، ہاں، پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنج کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ ’’کیوں جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟‘‘ استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہو گیا۔ گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کر چکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔
اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح سے اُوپر کو اُٹھا اور چشمِ زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا۔ اور نیچے اتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔ ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی۔ اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے۔ اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں۔ تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس کی چیخ پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا:۔ ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں ......... پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں.......... ‘‘ ’’ہے بچہ؟‘‘
لوگ جمع ہو گئے۔ اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا اس کی چوڑی چھاتی پھولی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔‘‘ ’’وہ دن گزر گئے۔ جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے........ اب نیا قانون ہے میاں........ نیا قانون!‘‘ اور بیچارا گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کے مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔ استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون نیا قانون‘‘ چلاّتا رہا۔ مگر کسی نے ایک نہ سُنی۔ ’’نیا قانون، نیا قانون۔ کیا بک رہے ہو........ قانون وہی ہے پرانا!‘‘ اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔

No comments:

Post a Comment